خواجہ حیدر علی آتشؔ کے ایک شاگرد اکثر بے روزگاری کی شکایت سے سفر کا ارادہ ظاہر کیا کرتے تھے اور خواجہ صاحب اپنی آزادہ مزاجی سے کہا کرتے تھے کہ میاں کہاں جاؤ گے؟ دو گھڑی مل بیٹھنے کو غنیمت سمجھو اور جو خدا دیتا ہے، اس پر صبر کرو۔
ایک دن وہ آئے اور کہا کہ ’’حضرت رخصت کو آیا ہوں۔‘‘
فرمایا: ’’خیر باشد، کہاں؟‘‘
انہوں نے کہا، ’’کل بنارس کو روانہ ہوں گا۔ کچھ فرمائش ہو، تو فرمادیجیے۔‘‘
آپ ہنس کر بولے، ’’اتنا کام کرنا کہ وہاں کے خدا کو ہمارا بھی سلام کہہ دینا۔‘‘
وہ حیران ہو کر بولے کہ ’’حضرت، یہاں اور وہاں کا خدا کوئی جدا ہے؟‘‘
فرمایا کہ ’’شائد یہاں کا خدا بخیل ہے، وہاں کا کچھ سخی ہو۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’معاذ اللہ! آپ کے فرمانے کی یہ بات ہے؟‘‘
خواجہ صاحب نے کہا، ’’بھلا سنو تو سہی، جب خدا وہاں یہاں ایک ہے، تو پھر ہمیں کیوں چھوڑتے ہو؟ جس طرح اُس سے وہاں جا کر مانگو گے، اُسی طرح یہاں مانگو۔ وہاں د ے گا، تو یہاں بھی دے گا۔‘‘
اس بات نے شاگرد کے دل پر ایسا اثر کیاکہ سفر کا ارادہ موقوف کیا اور حاظر جمعی سے بیٹھ گئے۔ (ڈاکٹر علی محمد خان کی کتاب ’’کِشتِ زعفران‘‘ مطبوعہ ’’الفیصل‘‘ پہلی اشاعت فروری 2009ء، صفحہ نمبر 23-24سے انتخاب)