غلط فہمی ہوجائے، تو بڑی مشکل سے اِزالہ ہوتا ہے۔
1970 کی دہائی کے ابتدائی سالوں کی بات ہے۔ہم بہ سلسلۂ ملازمت ڈگر میں مقیم تھے۔ رہایش کی شدید قلت تھی۔ ہم ریاستی دور کے ریسٹ ہاؤس کے ایک کمرے میں رہنے پر مجبور تھے۔ پورا علاقہ بونیر بجلی سے محروم تھا اور ابھی وہ الگ ضلع نہیں بنا تھا۔ اسی ریسٹ ہاؤس کے قریب ایک سرکاری مکان میں ایک میجر اور اُس کا سٹاف رہتا تھا۔ یہ مکان اِدغام سے پہلے ریاست کے ایک نمایندہ منتظم جو حاکمِ ڈگر کہلاتا تھا، کی رہایش گاہ تھا۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
یہ میجر صاحب فوج کے لیے مقامی نوجوان بھرتی کرنے آئے تھے۔ ہم حسبِ معمول ریسٹ ہاؤس کے صحن میں بیٹھے تھے۔ ملگجی سی شام تھی۔ ریسٹ ہاؤس کے نیچے دریائے برندو بہت دور تک بل کھاتا ہوا نظر آرہا تھا۔ میجر صاحب کچھ فاصلے پر ہم سے الگ تھلگ بیٹھے تھے۔ ابھی وہ ہم سے فری نہیں ہوئے تھے۔ وہ اپنے یونیفارم میں تھے اور ہم شلوار قمیص پہنے ہوئے تھے۔ ہمارے صاحب نے نوکر کو پانی لانے کا اشارہ کیا۔ از راہِ احتیاط ہم پانی کو شیشے کی بوتلوں میں رکھتے تھے، تاکہ حشرات الارض سے محفوظ رہے۔ نوکر ایک ٹرے میں بوتل اور چار گلاس لیے آیا اور ہمارے بیچ میز پر بڑے قرینے سے رکھ دیا۔ بوتل کھول کر ایک گلاس میں پانی ڈال کر بڑی تمیز کے ساتھ ایس ڈی اُو کو پیش کیا۔ ہم نے بھی اُن کی تقلید کی۔ میجر صاحب بڑے غور سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ چند لمحے بعد اُس نے آواز دی: ’’بھئ! ایک گلاس سادہ پانی ملے گا؟‘‘ نوکر بوتل اور گلاس لے کر اُن کے پاس گیا اور گلاس میں پانی انڈیلنے لگا، تو انھوں نے منع کرتے ہوئے کہا: ’’مَیں نے پانی مانگا تھا۔‘‘ نوکر نے جو دراصل 14 یا 15 سال کا سرخ وسفید چترالی لڑکا تھا، کہا: ’’سر پانی ہی تو ہے۔ یہ ہم مسجد کے قریب قدرتی چشمے سے لاتے ہیں۔‘‘ اب میجر صاحب اپنی خفت مٹانے کی کوشش کرنے لگے: ’’آپ لوگ برا نہ منائیں۔ میرا خیال بلکہ یقین تھا کہ آپ لوگ ’ڈرائی جن‘ پی رہے ہیں…… اور مَیں آپ سب کو رنگے ہاتھوں پکڑوانا چاہتا تھا۔‘‘
ہم اُس تنگ ترش رہایش سے بہت تنگ آچکے تھے، تو سواڑی کالج کے نئے تعمیر شدہ رہایشی بنگلوں میں سے ایک خود خو الاٹ کرواکر اُدھر شفٹ ہوگئے۔ اُن بنگلوں کے سامنے والے حصوں کے گرد چار دیواری نہیں تھی۔ کیوں کہ ریاست میں امن کا مثالی دور تھا اور یہ بنگلے اُسی دور میں مکمل ہوگئے تھے۔ اُن کے آگے ہزار فٹ چوڑا اور اتنا ہی طویل میدان تھا۔ سواڑئی بازار ابھی چند دُکانوں اور ایک آدھ گندے ہوٹل تک محدود تھا۔ ہم اکثر چائے کی بجائے قہوہ پیتے تھے، وہ بھی عام معمول سے زیادہ۔ ہم اس کو فرانس کے بنے ہوئے گلاسوں میں ڈال کر پیتے تھے۔ دور سے ایسے لگتا تھا جیسے سارے گلاس ’’نیٹ وہسکی‘‘ سے بھرے ہوئے ہیں۔
ہمارے قریب ہی پیدل چلنے والوں کے لیے ایک رستہ اُن لوگوں کے لیے تھا، جو سواڑئی بازار سے سودا سلف خرید کر امنور شلبانڈئ جاتے تھے۔ پبلک ٹرانسپورٹ صرف چند تانگوں تک محدود تھی۔ لوگوں نے ہمیں قہوہ پیتے ہوئے دیکھا، تو اُن کو وہی غلط فہمی ہوگئی، جو میجر صاحب کو ہوئی تھی۔
ایک دن علاقے کے چند معززین عین اُس وقت تشریف لائے جب ہم کھلے میدان میں بیٹھے قہوہ نوشی کر رہے تھے۔ سلام دعا کے بعد جب وہ بیٹھ گئے۔ ہم بے نوکر کو اشارہ کیا، وہ ایک ٹرے میں قہوہ بھرے گلاس لے آیا، تو وہ حضرات بہت ناراض ہوئے اور بہ یک آواز بولنے لگے: ’’آپ لوگوں نے ہمیں سمجھا کیا ہے؟ آپ لوگ سرکار کے ملازم نہ ہوتے، تو اپنا حشر دیکھتے۔ آپ شرافت سے کام لیں اور یہ حرام شے ترک کردیں۔‘‘ ہم نے جواباً کہا: ’’خان بابا! آپ کو کس نے کہا کہ قہوہ از روئے شریعت حرام ہے!‘‘
اب شراب کے بارے میں بھی ایک دلچسپ کہانی ملاحظہ ہو:
بونیر کے دور کی بات ہے۔ ہمارے پاس اکثر مینگورہ کے کچھ ٹھیکیدار صاحبان رات گزارنے کے لیے آتے۔ اُن میں ایک صاحب کے پاس امازئی میں نگرئی سے چروڑئی تک شنگل روڈ کی تعمیر کا ٹھیکا تھا۔ وہ نہایت دل چسپ شخصیت کے مالک تھے، لمبے تڑنگے اور خوب صورت۔ اُن میں ایک خامی جو بہت بری لگتی تھی، وہ دیسی شراب یا ٹھرّے کا بے تحاشا استعمال تھی۔ وہ اپنے لیے ہینڈبیگ میں چند بوتلیں لاتے۔ شام کو کھانے سے پہلے وہ پینے بیٹھ جاتے، تو ہر گھونٹ کے ساتھ منھ بناتے۔
ہم کہتے، جب یہ اتنا بد ذائقہ ہے، تو کیوں پیتے ہو؟ کہتے، دن بھر تم لوگوں کی کڑوی کسیلی باتیں سنتا ہوں، تو اِسی چیز سے اپنے من کا بوجھ ہلکا کرتا ہوں۔
ہم کہتے ’’ڈرائی جن‘‘ پیا کرو۔ خوش ذائقہ بھی ہے اور خوش بودار بھی۔
کہتے، وہ بھی کوئی شراب ہے، لیڈیز ڈرنک……!
ایک شام نگرئی سے آئے، تو قہقہے لگانے لگے۔ ہم نے پوچھا، کیوں اتنے خوش ہو رہے ہو؟ کہنے لگے، مَیں دن بھر کام کی بھاگ دوڑ میں تھک جاتا ہوں، شام کو ایک آدھ گلاس پی کر تازہ دم ہوجاتا ہوں،آج جب مَیں شام کو اپنے کیمپ آیا، تو گدھوں والے نے شکایت کی کہ اس کے تین گدھے بالکل کام نہیں کرتے۔ دن بھر سر جھکائے کھڑے رہے۔ مَیں نے ایک بالٹی پانی میں ایک پیالہ دیسی شراب (ٹھرّا) ڈال دیا اور تینوں گدھوں کو پلایا۔ دو گدھے ایک گھنٹے کے اندر اندر ہلاک ہوگئے اور تیسرا دولتیاں جھاڑتا ہوا جنگل کی طرف بھاگ گیا۔ دیکھو انسان کتنا طاقت ور ہے۔ مَیں پوری بوتل پی کر بھی زندہ رہتا ہوں۔
اُس واقعے کے کئی سال بعد کا واقعہ ہے، مجھے سہراب چوک سے گزرتے ہوئے کسی نے آواز دی۔ مَیں نے مڑکر ایک نہایت خوب صورت نورانی چہرے والے بزرگ کو دیکھا۔ اُس کے چہرے پر ایسا اطمینان تھا، جیسے گوتم کے چہرے پر نروان کے بعد تھا۔ ہم جیسے ہی ملے، تو مجھے پتا چلا کہ یہ وہی ٹھیکیدار صاحب تھے، منھ بگاڑ کر ٹھرا پینے والے۔ انھوں نے مجھے گلے لگایا اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔
واقعی، ہدایت نصیب ہوجائے، تو پل میں کایا پلٹ جاتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔