گل ریزتبسمؔ نے 1950ء کو خیبر پختون خوا کے ضلع صوابی میں ’’مرغز‘‘ نامی گاؤں میں طبلہ کے ایک ماہر استاد مہابت خان کے ہاں آنکھ کھولی۔ وہ خیبر پختون خوا کے ایک ماہر گلوکار صحبت خان کے بھتیجے ہیں۔
گل ریز تبسمؔ نے بہت عرصہ ریڈیو اور ٹیلی وِژن کے ذریعے لوگوں کواپنی جادوئی آواز کے سحر میں جھکڑے رکھا۔ آپ اس کے ساتھ ساتھ سٹیج پروگرام بھی کرتے رہے۔ اس طرح آپ نے اپنے فن کا لوہا منوا کر خود کو بڑے موسیقاروں کی صف میں شامل کیا۔ حکومتِ پاکستان نے آپ کی فنی خدمات کے صلہ میں آپ کو 2006ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے ساتھ پشاور میں آپ کو ’’سٹیج کے بادشاہ‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلے تین سال سے گلوکاری چھوڑ چکے ہیں، لیکن اپنے کام اور فن سے مطمئن ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔
گل ریز اپنے فن کی ابتدا کے حوالے سے کہتے ہیں: ’’مَیں نے موسیقی کے میدان میں 1969ء کو قدم رکھا اور جب بڑھاپے نے آلیا، تو 2015ء کو گلو کاری چھوڑ دی۔ مَیں نے پورے 46 برس ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلموں کے لیے گیت گائے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سٹیج پروگراموں میں بھی گاتا رہا ہوں۔ مذکورہ اداروں میں دل سے کام کیا ہے۔ اس عرصہ میں بے شمار گیت گائے ہیں، جن کا حساب معلوم نہیں، مگر اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ عزت، شہرت اور دولت تینوں سے نوازا ہے۔ ‘‘
گل ریز تبسم مزید بتاتے ہیں کہ وہ خیبر پختون خوا کے ایک ہنر مند گھرانے کے چشم وچراغ ہیں۔ اب تین بیٹیوں اور ایک بیٹے (محمد فیاض تبسمؔ) کے کفیل ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔
گل ریز تبسم کے کہنے کے مطابق ان کے پورے خاندان نے پشتو موسیقی کی خدمت کی ہے، جس میں ایک بڑا نام ان کے چچا جان ’’صحبت خان‘‘ کا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی ڈھیر سارے نام اس فہرست میں شامل ہیں۔ ’’استاد صحبت خان کے ڈھیر سارے گیتوں کی ریکارڈنگ اب بھی انڈیا اور یورپ میں محفوظ ہے۔ صحبت خان استاد کے ایک بیٹے نے پاکستانی اُردو فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی ہے، جن میں ’’ستاروں کی دنیا‘‘ اور ’’عشق‘‘ شامل ہیں۔ اپنے دورکی بہترین قوالی ’’میرا کوئی نہیں تیرے سوا‘‘ کی کمپوزیشن بھی اُنہی کی تھی۔ میرے چچا کے دوسرے صاحب زادے ’’جعفر حسین‘‘ بھی کلاسیکی موسیقی کے استاد تھے۔ انہوں نے ریڈیو اور ٹیلی وِژن کے لیے ڈھیر سارے گیتوں کی دھنیں ترتیب دی ہیں۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ ہمارے خاندان میں میرے بعد کوئی اس فن کی طرف نہیں آیا۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے جو الحمداللہ حافظِ قرآن ہے۔‘‘
گل ریزتبسمؔ کہتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ کی نامزدگی کے لیے نام پیش کیے گئے جس کے لیے تقریب کا انعقاد پشاور اور کراچی میں کیا گیا۔ مذکورہ تقریب میں اندرونِ ملک کے موسیقاروں کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک سے بھی شرکت کی گئی اور سٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا گیا، اس میں ’’سٹیج کے بادشاہ‘‘ کے لقب سے گل ریز تبسمؔ کی عزت افزائی کی گئی۔ ’’مجھے 2002ء میں صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے علاوہ ڈھیر سارے انعامات بھی ملے ہیں، جو ثقافتی اور فنِ موسیقی کے اداروں کی طرف سے ہیں۔ پاکستان ٹیلی وِژن کے ایک پروڈیوسر مرحوم ’’عالم زیب عامر‘‘نے پشاور میں میری تا جپوشی کی۔ پشتو فلموں کے دو نام وَر فلمی ستاروں بدرمنیر اور طارق شاہ نے میری عزت افزائی کے لیے کراچی میں ایک بڑا پروگرام منعقد کیا تھا۔ مَیں نے ملک کے ہر صوبے میں سٹیج پروگرام کیے ہیں، جن میں، مَیں نے پشتو گانوں کے علاوہ سرائیکی، ہندکو اور فارسی زبان میں بھی گیت گائے ہیں۔‘‘
گل ریز تبسمؔ اپنے سٹیج پروگراموں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ان کی تعداد تقریباً 10 ہزار تک ہوگی۔ اپنے فن کی قبولیت کا یہ راز بتاتے ہیں کہ ان میں سب لوک گیت اور غزلیں شامل ہیں، جن سے انہوں نے لوگوں کے دل جیتے اور وطن سے محبت کا جذبہ اُجاگر کیا ہے۔ ’’ملک کے اندر اور باہر مَیں نے تقریباً 10 ہزار سٹیج پروگرام کیے ہوں گے۔ پاکستان کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہوگا جہاں مَیں نے گیت نہیں گایا ہو۔ میرے خیال میں ایسے بہت کم فن کار ہوں گے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوگا۔ مَیں سامعین کی نفسیات سے آگاہ تھا،اور مجھے پتا ہوتا کہ کس موقع پر کیا گانا ہے۔ ’’غزل‘‘ پشتو زبان کی بھی مقبول صنف ہے۔ مَیں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے غزلیں گائی ہیں۔ حتی کہ مَیں نے ٹی وی کے ایک پروگرام کے لیے بیس غزل تک ایک ساتھ ریکارڈکروائے ہیں۔ غزلوں کے علاوہ میں نے ’’سربیرہ‘‘، ’’ٹپے‘‘، ’’چاربیتے‘‘ اور ’’بدلے‘‘ (پشتو شاعری کی اصناف) بھی گائے ہیں۔ پشتو موسیقی میں سب کچھ گایا ہے اور سمجھتا ہوں کہ اس کا حق ادا کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔‘‘
گل ریز تبسمؔ مزید کہتے ہیں کہ انہوں نے 120 فلموں کے لیے گیت گائے ہیں ۔ ساتھ فلم اور ٹیلی فلموں میں اداکاری بھی کی ہے۔ اس اُمید کے ساتھ کہ پشتون قوم انہیں فنِ موسیقی کے علاوہ اداکاری میں بھی یاد رکھے گی۔ ’’مَیں نے تقریباً 120 فلموں کے لیے گیت گائے ہوں گے۔ رفیق شنواری کے ساتھ بھی کام کیا ہے اور گیت گائے ہیں، لیکن زیادہ تر کام موسیقار ’’ایس ٹی سنی‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ میرے زیادہ تر گائے ہوئے گیت شاعر ’’امیر غلام صادقؔ‘‘ کے لکھے ہوئے ہیں۔ میرے ایک دوست جو فلم پروڈیوسر ہیں، نے مجھے ایک فلم میں مرکزی کرداردیا تھا، مگر بد قسمتی سے وہ فلم فلاپ ہوگئی۔ اس کے علاوہ ٹیلی وژن کے ڈراموں میں بھی اہم کردار کیے ہیں جنہیں عوام نے سراہا ہے۔ اسی بنا پر میں اُمید کرتا ہوں کہ پختون قوم مجھے ہمیشہ ایک اچھے فن کار کے طور پر یاد رکھے گی۔‘‘
آج کی موسیقی کے حوالے سے گل ریز تبسم کہتے ہیں کہ ’’پرانی موسیقی میں ایک مزہ تھا جس کو روح کی غذا کہا گیاہے جب کہ جدید موسیقی میں شور ہے، اسے اگر روح کی سزا کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔ ‘‘
گل ریز تبسمؔ کے گائے ہوئے چند گیت ملاحظہ ہوں:
ڈیری خبری می پہ زڑہ وے، خو ما ھیث اونہ وی
تہ راتا ہر سہ ہر سہ وے، خو ما ھیث اونہ وے
زما دَ حال پختنہ سہ لہ کوی
پہ زڑہ دے یو وی، پہ خولہ بلہ کوی
زلفی دی سنبل دی پہ سنبل گلونہ سہ لہ گدے
تہ پہ خپلہ گل ئی پہ اوربل گلونہ سہ لہ گدے
پہ زڑہ بہ غٹہ تیگہ کیگدم، بیا بہ نہ درزمہ
دغہ کوسے بہ یارہ پرکیگدم، بیا بہ نہ درزمہ
پہ سپن مخ وہی ٹالونہ، کلہ یو خوا کلہ بل خوا
راکوی پہ زڑہ داغونہ، کلہ یو خوا کلہ بل خوا
تہ چی پہ بام باندی ولاڑہ وے تا چا تہ کتل
خلک زما پہ نندارہ وو چہ ما تا تہ کتل
(مشال ریڈیو کی شائع کردہ ہارون باچا کی پشتوتصنیف ’’نہ ھیریگی نہ بہ ھیر شی‘‘سے ’’گلریز تبسم‘‘ کا ترجمہ)
………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔