’’نام‘‘ دُنیا کی ہر زبان میں کسی شخص کی پہچان ہے۔ لقب، کنیت، خطاب، عرف اور تخلص اس کا ذاتی امتیاز ہے۔ جب کہ شہرت، درجہ، یادگار، نیک نامی اور نسل سب ’’نام‘‘ رکھنے کا باعث بنتے ہیں۔
ترکی زبان کا لفظ ’’خان‘‘ وسطِ ایشیا کے سلاطین اور قبائلی سرداروں کالقب ہے۔ جب منگولیا کی تاتار قوم اُٹھی، تو اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا۔ چغتائیوں نے اسے شاہی خطاب کادرجہ دیا، تو ترکستان کے عوام و خواص نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہاں تک کہ خان کی تانیث’’خانم‘‘بھی اچھے خاندان کی خواتین کے لقب کے طور پر جانا جانے لگا۔ اب ’’خان‘‘ امیر یا بڑے سرداروں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جب غزنویوں کی لشکر میں پشتونوں نے غیر معمولی کارنامے سرانجام دیے، تو یہ پشتون مردوں کے ناموں کا جز قرار پایا۔
کہتے ہیں کہ پشتونوں کو پہلی بار سلطان محمود غزنوی نے یہ نام دیا تھا۔ غوریوں کے زمانے میں پشتونوں کی اکثریت اُن کے ساتھ تھی۔ اس لیے یہ نام پشتونوں میں مزید اعلیٰ حیثیت کا حامل ہوا۔ یہاں تک کہ ایران اور ترکستان سے آئے فاتحین نے اُن کا یہی نام برقرار رکھا۔ وسطِ ایشائی حملیِ جن کا رُخ اکثر ہندوستان کی طرف تھا، ان میں پشتونوں کی بھی اکثریت ہوا کرتی تھی، جس کی وجہ سے بعض علاقے پشتونوں کی دسترس میں آگئے تھے۔ مثلاً سلطان پگھل کی ریاست جس میں (سوات سمیت) شمالی پختون خوا کے اکثر علاقے شامل تھے، میں کثیر تعداد میں پشتون آباد تھے۔ لہٰذا یہ نام پشتونوں میں مزید وقعت کا باعث بنا۔
اس طرح جب پشتونوں کی طاقت میں اضافہ ہوا اور دلہ زاک کی طرح نیازی، لودھی، سوری، یوسف زئی اور خٹک وغیرہ میدانِ حرب میں کود پڑے، تو ہندوستان میں شایانِ شان سرداروں اور پایۂ تختوں نے اُن کی سواگت کی۔ اب خان کا لفظ پشتونوں کے نام کا جزلاینفک بن گیا۔ داؤد خان (شیر شاہ سوری)، خان گجو (یوسف زئی) اور خوشحال خان (خٹک) وغیرہ جیسے تاریخی سرداروں اور بادشاہوں کے ساتھ ’’خان‘‘ کا لاحقہ لگایا جانے لگا۔ مغلوں نے یہ نام بڑے بڑے سپہ سالاروں اور سرداروں کو بطورِ خطاب عطا کیا۔ اکبر بادشاہ نے تو لفظ ’’خان‘‘ کو سرکاری حکم نامے کے بغیر جاری کرنے تک پر پابندی عائد کی تھی۔ جہانگیر جو خطابات اور القابات دینے کے لیے جانے جاتے تھے، وہ دیگر القابات کے ساتھ ساتھ شیر خان، لشکر خان، مقرب خان اور خان دوران وغیرہ جیسے خطابات بھی جاری کرتا تھا۔ مغلیہ دور میں’’خان اعظم‘‘بڑا خان یعنی خانوں کا خان اور خانِ خاناں یعنی سردار بھی عام تھے۔
انگریزوں نے اپنے وفاداروں کے لیے ’’خان بہادر‘‘کا لفظ متعارف کرایا، لیکن یہ نام پشتونوں کے علاوہ پارسیوں اور عام مسلمانوں کو بھی دیا جاتا تھا۔ پھر بھی پشتونوں میں اس نام کی وقعت کم نہ تھی۔ کیوں کہ پشتون اب بھی قبائلی نظام کے تحت سرداروں اور جاگیر داروں کے ماتحت تھے، جن کی معاشرتی درجہ بندی چھوٹے بڑے خانوں کے ذریعے ہوا کرتی تھی۔ تاوقت یہ کہ ہندوستان آزاد ہو کر دو ریاستوں کی شکل میں نمودار ہوا۔ خود مختار ریاستیں ایک ایک کرکے اِن دو ملکوں میں ضم ہوئیں اور آئینی اور ملکی قوانین لاگو ہوئے۔ پھر بھی قبائلی نظام ایک حد تک مروج تھا۔ اس لیے قبائلی اختیارات جاری رکھنے کے لیے خان اور خان ازم چلتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ قبائلیت کمزور پڑ گئی اور معاشرہ سرمایہ داری نظام کی طرف مائل ہوگیا۔ جس سے انتظامی اُمور براہِ راست حکومت اور ریاست کے ہاتھ میں آتے گئے۔ اب تھانیدار، خان جی، خان، مشر خان اور کشر خان وغیرہ کہلایا جانے لگا ہے۔ جب کہ عام لوگوں میں خان محض خاندانی حیثیت تک رہ گیا ہے اوراب تو بعض خاندانوں میں یہ نسلی روایت سا بن گیا ہے، جن کے آبا و اجداد کسی زمانے میں خان گزرے تھے۔ جیسا کہ ’’خان خیل۔‘‘
خانکی انتظامی اور سیاسی حیثیت اگرچہ ختم ہوچکی ہے، تاہم سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اور بڑی حد تک جاگیریں رکھنے کے باعث ’’خانی‘‘ ایک حد تک زندہ ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ اگلے دو دہائیوں میں خان اور خانی فقط ایک تاریخ بن کے رہ جائے گی۔ رہا لفظ ’’خان‘‘تو یہ عوام میں اس قدر مانوس ہوگیا ہے کہ عام لوگ خواہ وہ کسی بھی نسل، قوم یا طائفے سے تعلق رکھتے ہیں، خان کو اپنے ناموں کے ساتھ بطورِ لاحقہ لاتے ہیں۔ جب کہ بچوں کو پیار کی وجہ سے’’خان‘‘ پکارا جاتا ہے۔ گویا یہ خطاب اور لقب کے ساتھ ساتھ عرف کی شکل بھی اختیار کرگیا ہے۔ موسیقی کے بڑے بڑے استادوں اور گویوں نے تو پہلے ہی ’’خان‘‘کا لقب پایا تھا۔ اسی طرح آغا خانی مسلک کے پیشواؤں کو بھی یہ نام بھا گیا تھا۔ اب اس میں کوئی حرج نہیں کہ عام لوگ بھی اسے استعمال کریں۔
عربی لفظ ’’ملک‘‘ کو بھی پشتونوں نے معاشرتی وقار کے طور پر استعمال کرکے اسے عام کیا ہے۔ پشتونوں کا یہی ایک خاصا ہے ورنہ میر، میرزا اور بیگ بھی ترکیوں کے خطابات اور القابات تھے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ نہ تو ان کو اس قدر پذیرائی ملی، اور نہ یہ نام اتنے مقبول ہی ہیں۔
قارئین، یہ صرف پشتون ہی تھے جن کے ذریعے اس لفظ ’’خان‘‘نے عالمی شہرت پائی ہے۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔