اگر غنیؔ خان بابا کو سردار علی ٹکر نہ ملتے، تو شائد مجھ جیسے بدذوق آج بابا کے افکار سے واقف نہ ہوتے، اور اگر رفیق شنواری، حمزہ بابا کے کلام پر اپنی آواز کا جادو نہ جگاتے، تو شائد حمزہ بابا اعلیٰ ذوق رکھنے والوں تک ہی محدود رہتے۔ بعینہٖ اگر گلوکار کرن خان، صاحب شاہ صابرؔ کا کلام نہ چُنتے، تو شائد ہم صابرؔ (مرحوم) کے دیوانے نہ بنتے اور آج یہ ٹوٹی پھوٹی تحریر اخبار کی زینت نہ بنتی۔
قارئینِ کرام! اس چھوٹی سی تمہید کو زیبِ داستاں سمجھ لیں، اس سے کسی اور کا اتفاق ضروری نہیں۔
صاحب شاہ صابرؔ کی ایک غزل جس کے ساتھ کرن خان نے پورا پورا انصاف کیا ہے، کمال کی ہے اور صابرؔ (مرحوم) سے ہماری عقیدت کا آغاز بھی اُسی غزل سے ہوا ہے۔ مذکورہ غزل کا ایک شعر اکثر مَیں اپنے طلبہ کا خون گرمانے کی غرض سے ’’کوٹ‘‘ کرتا رہتا ہوں، آپ بھی ملاحظہ کیجیے:
مونگہ ھغسی د زمکی لائق نہ یو
د دنیا قامونہ ستوری د اسمان دی
پوری غزل کمال کی ہے۔ اس کے ایک ایک شعر پر پورا پورا دن سر دھنا جاسکتا ہے۔ غزل ملاحظہ ہو:
دَ خانانو بہ سہ وایو چی خانان دی
ملنگان دَ پختنو خپلو کی وران دی
مونگہ ھغسی دَ زمکی لائق نہ یو
دَ دنیا قامونہ ستوری دَ اسمان دی
پختو ھغہ گنہگارہ دوزخی دہ
پختانہ غزا لہ تلی جنتیان دی
سڑیتوب وی دَ سڑی پہ سو خبرو
پہ سڑی کی خو سو نخی دَ انسان وی
دا یو سو یاران کہ نہ وی بیا بہ نہ یم
زما ژوند دغہ یو سو خواگہ یاران دی
ایک عرصہ سے میری خواہش تھی کہ صاحب شاہ صابرؔ کے بارے میں کچھ خاص جان لوں، مگر کم از کم مجھے تلاشِ بسیار کے بعد ایسا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اور جتنا دوستوں سے سن رکھا تھا، وہ اس قابل نہیں تھا کہ صابرؔ (مرحوم) کے چاہنے والوں کے ساتھ شریک کرلوں۔ وہ تو بھلا ہو ’’ذبیح شفق‘‘ کا جنہوں نے ’’اسد دانش مطبعہ‘‘ کی طرف سے شائع شدہ ’’دَ صاحب شاہ صابرؔ کلیات‘‘ میں صابرؔ (مرحوم) کے حوالہ سے گراں قدر معلومات ’’زما صابرہ‘‘ کے عنواں کے تحت اکھٹی کی ہیں۔ تحریر کی تنگ دامنی کے پیشِ نظر چند مخصوص اقتباسات کے ترجمہ پر اکتفا کرنے جا رہا ہوں۔ بلاشبہ آج کی نشست کا سہرا’’ذبیح شفق‘‘ کے سر ہے۔
صاحب شاہ صابرؔ 9 مارچ 1956ء کو ضلع ملاکنڈ کے گاؤں سخاکوٹ (خیبرپختونخوا) میں پیدا ہوئے۔ رسمی تعلیم کا آغاز چھے سال کی عمر میں ملاکنڈ کے ایک پرائمری سکول سے کیا۔ ملاکنڈ ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ انٹرمیڈیٹ تعلیم پشاور کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی۔ پشتو زبان سے بے پناہ محبت کی بنا پر پشاور یونیورسٹی سے اول پشتو ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد علمی پیاس بجھانے کے لیے اردو ادب کے ساتھ ساتھ پولی ٹیکل سائنس میں بھی ماسٹرز کی ڈگری لی۔ یہ سلسلہ مذکورہ یونیورسٹی کے پشتو اکادمی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وقتی طور پر رُک گیا۔
اس کے بعد صابرؔ (مرحوم) ایک معلم کی حیثیت سے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش میں لگے رہے۔ ساتھ ساتھ پشتو ادب کی تحقیق میں بھی جتے رہے اور مشقِ سخن بھی جاری رکھی۔ وہ میدانِ سیاست کے بھی شہسوار تھے۔ اپنی مٹی اور وطن کی محبت نے انہیں زِنداں کی سیر بھی کرائی۔ کئی سال تک اسیر رہے، لیکن قید و بند کی سختیاں اور بے رحم صاحبِ اختیار کا سلوک بھی ان کی رگ و پے میں لہو کے ساتھ دوڑنے والی پشتو اور مٹی کے ساتھ محبت میں کوئی کمی نہ لا پایا۔ ان کی سیاسی زندگی کے حوالہ سے ان کے قریبی دوست جناب رحمت شاہ سائلؔ فرماتے ہیں: ’’پھر وہ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ساتھ جُڑ گئے۔ تھانہ کالج میں ہمارے کچھ دیگر دوستوں نے مشاعروں کی بنیاد رکھی تھی، وہاں سے صابرؔ نے بحیثیتِ شاعر نام کمایا۔ ساتھ ساتھ طلبہ کے لیڈر کی حیثیت سے اس نے شہرت پائی۔ اس کے بعد وہ مردان کالج آئے۔ دھن کے پکے تھے، اس لیے محض ایک سال کے اندر اندر اپنی فیڈریشن کی صدارت کا انتخاب جیتنے میں کامیاب رہے۔ اس کامیابی کے بعد صابرؔ نے موضع کلپانئی تک جلوس نکالا۔ایک روز بعد کسی نے خبر دی کہ امیرزادہ خان کے ہاں باچا خاں بابا آئے ہیں، وہاں بھی صابرؔ کئی نوجوانوں کے ساتھ جلوس کی شکل میں پہنچ گئے۔ تیسرے روز علاقائی موسیقی کے ایک گروپ کے ساتھ دو مختلف راستوں سے راحت خان بابا کے حجرہ میں جوانوں اور نوجوانوں کو لے کر پہنچے۔ اس کے بعد صدارت کی کرسی سنبھالنے والے صادق صاحب کے ہاں رات گزاری۔ جوان ایک لمبا سفر طے کرنے کے بعد تھک گئے تھے، مگر جذبہ ایسا تھا کہ پو پھٹنے تک کسی نے آنکھ بند نہ کی اور اتنڑ کا مظاہرہ کرتے کرتے رات گزار دی۔‘‘
صابرؔ (مرحوم) ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے نقاد بھی تھے۔ انہوں نے دونوں مناصب کا بھرپور حق ادا کیا۔ اس حوالہ سے سائلؔ فرماتے ہیں: ’’وہ سیاسی نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی نقاد بھی تھے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے انہوں نے کتنی کتب کا مطالعہ کیا ہوگا۔ مثبت تنقیدی کلچر کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے جو پہلی کتاب ’’تکل‘‘ شائع کی تھی، اس پر دیگر مقالہ نگاروں کے علاوہ مَیں (رحمت شاہ سائلؔ) اور اور ڈاکٹر خالق زیارؔ نے بھی تنقیدی مقالے تحریر کیے تھے۔ صورتحال یہ ہے کہ کتب کی تقریبِ رونمائی کے موقعوں پر آج بھی توصیفی مقالے پیش کرنے کا رواج ہے، ایسے میں تین خاص تقاریب مجھے یاد ہیں جن میں ایک میرے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی اور دیگر دو میری کتب کی رونمائی کے حوالہ سے تھیں، ان میں صابرؔ نے میری شاعری کا تنقیدی جائزہ لیا تھا اور میری شخصیت اور فن کے محاسن و معایب بیان کرنے میں کسی قسم کی رو رعایت سے کام نہیں لیا تھا۔‘‘
صابرؔ (مرحوم) شاعری کے ساتھ ساتھ افسانہ اور تاریخ کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ وہ تاریخی اور تنقیدی مجالس میں سیر حاصل گفتگو کیا کرتے تھے۔ تنقید کے ساتھ محبت اور اس کے بے پناہ مطالعہ کی وجہ سے بالآخر انہوں نے تنقیدمیں بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی۔
صابرؔ (مرحوم) کی اچھی شاعری کی ایک وجہ یہ ہے کہ ابھی ان کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں کہ رحمت شاہ سائل اور ڈاکٹر خالق زیارؔ جیسے شعرا کے ساتھ ربط و ضبط کا سلسلہ پروان چڑھایا۔ ان کی شاعری لر و بر پختونخوا کے نامی گرامی گلوکار جیسے استاد خیال محمد، ہارون باچا، سردار یوسف زئی، نغمہ، نعیم خان توری، کرن خان اور سرفراز گا چکے ہیں۔
صابرؔ (مرحوم) 3اپریل 2007ء کو حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کرگئے۔ جاتے جاتے مرحوم کے چند متفرق اشعار ملاحظہ ہوں:
یارانو دوی تہ بہ سہ صبر کوو
پریگدئی چی پاتی شی بے زڑہ ملگری
سہ دَ جلوس، سہ دَ جلسی، سہ دَ غزا شہیدان
مونگ بی ہنرہ پختنو سرہ بلا شہیدان
د بوڈئی غوندی پہ یو موٹی مالوچو
د یوسف د حسن زہ ھم خریدار یم
پہ دی کوسو کی دَ الفت بادونہ، نہ الوزی
صابرہؔ! دلتہ دَ الفت رنگونہ مہ لٹوہ
زمونگ وعدی د خکلو سنڑی نہ دی
چی رنگ بہ واڑوی ارزانی بہ شی
د چا پخی ماتے وے، د چا لاری تہ ملا ماتہ وہ
ما بہ ترسو پوری پہ زان پسی راخکل ملگری
دلتہ پردی د چا د پخو زولنئی نہ جوڑیگی
دلتہ خو ہر سڑی تہ لاری نیسی خپل ملگری
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔