کیا آج کل مہنگائی پر بات ہوتی ہے، کیا ڈالر کی اونچی اُڑان زیرِ بحث ہے، کٹائی کے موسم میں بھی مہنگا گندم اور پنجاب سے آٹا لانے پر پابندی پر کہیں بات ہورہی ہے، سال ہونے کو آگیا مگر آئی ایم ایف نے پی ڈی ایم سرکار کے ساتھ معاہدے پر دستخط نہیں کیا، کیا کوئی اس پر سوچ رہا ہے، وہ جو ہر طرف مہنگائی کا شور تھا، وہاں اَب خاموشی کا راج کیوں ہے اور کیا مہنگائی ختم ہوگئی؟
قارئین! جواب سیدھا سادھا ہے…… نہیں، سب کچھ ویسے کا ویسا ہے، مگر میڈیا کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
قارئین کو یاد ہوگا کہ کئی ہفتے پہلے انھی صفحات پر لکھا تھا کہ معاشی بدحالی کی جو کہانی میڈیا میں گھڑی گئی ہے، یہ صرف ’’ایلیٹ کلاس‘‘ کے مفادات کی خاطر ہے۔ وگر نہ خیبر تا کراچی اور گوادر تا کشمیر نچلے طبقے کی زندگی اب بھی ویسی کی ویسی ہے۔ اکثریت کے بچے سکول سے باہر یا سرکاری سکولوں میں پڑھنے پر مجبور ہیں، جہاں تعلیم کا معیار سب کو معلوم ہے۔ صحت کے وسائل عنقا، پینے کو صاف پانی میسر نہیں، آمد و رفت کے جدید ذرائع سے نابلد اور زیادہ تر مختلف مسالک اور عقاید کے مذہبی پیشواؤں کی گرفت میں محصور……! الغرض یہ میڈیا ہی تھا جس نے صبح و شام مہنگائی کا راگ الاپ کر لوگوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا تھا۔ چوں کہ یہ ذہنی اذیت کسی حد تک ایلیٹ کلاس کو بھی پہنچی تھی، کیوں کہ ڈالر کی عدم دست یابی کے باعث ’’امپورٹیڈ‘‘ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔ اس لیے قومی میڈیا خاص کر نجی چینل جو بڑے بڑے سیٹھوں کے دم قدم سے فعال ہیں، ان کا لکھا ہوا ’’مہنگائی ترانہ‘‘ تھا، جو کورس میں گایا جاتا تھا۔ میڈیائی اثرات کے باعث رکشہ کے ڈرائیور سے لے کر مسجد کے پیش امام تک سب کی زبانوں پر مذکورہ ترانہ تھا۔ تب بھی عرض کیا تھا کہ یہ رونا دھونا اور مہنگائی کا شور اور غلغلہ شہروں کی حد تک زیادہ ہے، جب کہ دیہاتوں میں جہاں آج بھی زندگی کا اکثر حصہ روایات پر مشتمل ہے، معاشی بدحالی کا یہ منظر نامہ وہاں ہرگز نہیں۔
اب جب 9 مئی کے واقعات رونما ہوئے ہیں، اور میڈیا مجبور ہوا ہے کہ ایک خاص ’’ادارے‘‘ کے بیانیے کو پیش کرے، لاہور میں ایک اعلا آفیسر کی رہایش گاہ کو زبردستی ’’جناح ہاوس‘‘ ثابت کرے، حالاں کہ جناح صاحب نے مذکورہ گھر میں پورا دن گزارا اور نہ کبھی رات ہی بسر کی۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ 9 مئی ہونے تک پاکستان کی 99.99 فی صد لوگوں کو اس بارے میں علم ہی نہیں تھا، نہ کبھی مذکورہ ادارے نے لوگوں کو اس بارے میں بتانے کی کوشش ہی کی تھی۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر جناح سے اتنی وفا داری یا محبت ہے، تو اُس کی مبینہ رہایش گاہ کو ذاتی استعمال میں لانے کی بجائے عوامی آگاہی کی خاطر اسے میوزیم میں بدلتے یا یہ عمارت تعلیمی و تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال میں لائی جاتی، لیکن نہیں……! کیوں کہ یہاں شائد قائدِ اعظم پر بھی خاص ادارے کو ’’قبضہ‘‘ حاصل ہے۔ بہرحال بلوائیوں نے گھیراو جلاو کرکے غلط کیا…… اور اُن کی غلط روش کی بدولت ہم جیسے اَن پڑھ لوگوں کو کم از کم یہ تو معلوم ہوا کہ قائدِ اعظم کی ایک رہایش گاہ لاہور میں بھی ہے۔ اُس کے بعد میڈیا نے ’’میراتھن‘‘ انداز میں بیانیہ تشکیل دیا، جس میں سب سے زیادہ زور جناح ہاؤس کی خاکستری پر دیا جا رہا ہے۔ حالاں کہ سوال یہ بھی کرنا چاہیے کہ آغاز میں جب وہاں چند ہی مظاہرین جمع تھے، اُن کو کسی نے روکا کیوں نہیں؟ ایسے ڈھیر سارے سوالات ہیں، مگر پوچھنے کا فائدہ کچھ نہیں۔
بہرحال اب جب میڈیا مجبوراً ایک بیانیے کی تشہیر میں مصروف ہے، تو ملک بھر میں کسی کو بھی مہنگائی یاد نہیں رہی۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ مہنگائی ختم ہوگئی۔ مہنگائی اب بھی ہے بلکہ مزید بڑھ گئی ہے۔ ڈالر تین سو پاکستانی روپے کے قریب ہوگیا ہے، لیکن چوں کہ میڈیا میں کہانی ہی کچھ اور چل رہی ہے، اس لیے ہر کسی کی زبان پر 9 مئی کے واقعات کا ذکر ہو رہا ہے۔
9 مئی جو واقعی ملکی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ ہے، لیکن کیا اب ہم بحیثیتِ قوم نکلے ہوئے سانپ کی لکیر ہی کو پیٹتے رہیں گے؟ ممکن ہے کہ کل کلاں میڈیا میں کوئی اور بات ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن جائے، تو کیا 9 مئی کے زخم مندمل ہوجائیں گے؟
چوں کہ یہ ’’میڈیائی ایفکٹس‘‘ کی کہانی ہے، اور عوام کی اکثریت اس سے نابلد ہے، اس لیے میڈیا جو چاہے عوامی ذہنوں میں انڈیلتا جائے۔ کئی دہائیوں سے میڈیا میں یہ دانش ورانہ بحث جاری ہے کہ میڈیا جو کچھ دکھا رہا ہے، عوام وہ دیکھنے پر مجبور ہیں یا عوام جو کچھ دیکھنا چاہ رہے ہیں، میڈیا وہی دکھانے پر مجبور ہے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔