زندگی کا مزہ ہی اس کی تلخیوں میں ہے۔ یقین جانیے اگر زندگی میں ہر طرف سکون ہو،تو چار دن میں انسان موت کی تمنا کرنے لگیں۔ چار دن ایک جیسا کھانا کھانے سے ہم اُکتا جاتے ہیں اور تمنا کرتے ہیں کہ زندگی میں ہر وقت سکون ملے، یہ ممکن نہیں۔ وہ بھی انسان ہی تھے جنہوں نے من و سلویٰ ٹھکرا دیا تھا۔ وجہ صرف یہی تھی کہ انسان کی سرشت میں ہی یکسانیت نہیں۔
زندگی میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے گھبرا کر سکون کی تلاش کرنے والے زیادہ دن سکون وآرام کو بھی نہیں جی سکتے۔ غموں اور دکھوں کی رات کتنی بھی کالی اور لمبی کیوں نا ہو، صبح کا اُجالا چھٹتے ہی ہر طرف سے تاریکی کو کھا جاتا ہے، لیکن اگر دن لمبے ہوجائیں، سورج واپسی سے انکاری ہو، تو وہی روشنی کی کرنیں آنکھوں کو چبھنے لگتی ہیں۔
قارئین! وقت ایک سا نہیں رہتا، مگر زندگی میں کناروں سا سکوت زندگی کو بے معنی سا کر دیتا ہے۔ زندگی کا وہ دن جو بنا کسی نئے پن اور بھونچال کے گزر جائے، کتنے دن یاد رہتا ہے؟ زندگی میں وہی دن یادیں بنتے ہیں، جو کوئی بھونچال کوئی تبدیلی لائے ہوں۔
بھنور کی زندگی کوئی کناروں پر موجود پتھروں سے پوچھے جو جان لیوا سکوت اپنے اندر سموئے صدیوں تک زندگی کی رمق کو ترستے ہیں۔ زندگی کی منزل موت ہے، تو کیا ہم صرف مرنے کے لیے جیتے ہیں؟ جس طرح جینے کے لیے سانس لینا ضروری ہے، ویسے ہی غم اور خوشی کے لمحات بھی ضروری ہیں۔ کیوں کہ زندگی خوشیوں میں کم اور غموں میں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
قارئین! منزل کی خوشی چند لمحوں کی ہے، اس خوشی کو حا صل کرنے کے لیے زیست کو آہوں کی نذر کرنے کی بجائے راستوں کی دشواریوں میں زندگی کی تلاش شروع کر دیں۔ یقین کریں جب جب زندگی میں مایوسی کے سائے نظر آئیں گے، تب تب زندگی محسوس ہونا شروع ہو جائے گی۔
قارئین ! وقت کو اچھا بنانے کے چکر میں ہم لمحوں کی خوشیوں کو درگزر کرتے چلے جارہے ہیں۔ بچوں کی خواہشوں کو پورا کرنے اور انھیں آسائشیں دینے کے چکر میں ہم ان کی قلقاریوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کسی لمحے رُک کر زندگی کے ان لمحوں کو مٹھی میں دبو چ کر صرف بچوں کی ہنسی پر توجہ دے کر دیکھیں۔ دور سے آتی کوئل کی کوک پر غور کریں۔ سردہوا کی سر سراہٹ کو محسوس کریں۔ بیل کی گردن میں جھومتی گھنٹی کی آواز سنیں۔ سکول سے نکلتے بچوں کے چہروں پر سجی تھکن زدہ مسکان کو پرکھیں۔ دن بھر کی مشقت کے بعد شام کو مزدوری ہاتھ میں تھامے مزدور کی آنکھوں کی چمک کو ٹٹولیں۔ زندگی کی اصل رمق آپ کو ان میں ملے گی۔ تب آپ جانیں گے کہ زندگی کی اصل خوبصورتی انہی لمحوں میں ہے اور کہاں ہم سکون کی تلاش میں مردہ زندگی گزارنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
خدا کی ذات کے لیے بہت آسان تھا سب انسانوں کو ایک جیسی زندگی، ایک جیسا ماحول، دولت اور کام دے کر اس دنیا میں بھیجنا مگر پھر بھی اس ذات نے سب کو الگ الگ شناخت اور معنی کے ساتھ پیدا فرمایا اورانسان کے خون میں بے سکونی ڈال دی، تاکہ و ہ جمود میں نہ رہے۔
ہر دور میں بچپن کو خوب صورت کہنے والو، اگر زندگی بچپن کی بھول بھلیوں میں ٹھہر جائے، تو بھی دنیا زہر لگنے لگے گی اور اگر جوانی کا زور ایک طویل عرصے تک رہے، تو جوانی بھی بوجھ لگے گی۔ جوانی، بچپن کی اور بڑھاپا جوانی کی اہمیت سے روشناس کراتا ہے۔ اسی طرح اندھیرے ہی روشنی کو واضح کرتے ہیں۔
قارئین کرام! چینی کہاوت ہے کہ ’’سست روی سے نہیں جمود سے ڈرو۔‘‘ خدا نے انسانی فطرت میں بے سکونی ڈال کر راستے فراہم کیے ہیں۔ خدا کی تخلیق میں واحد انسان ہی ہے جو اپنے اندر کی بے سکونی کو لے کر غاروں سے نکل کر آج کے محلات تک پہنچا ہے۔ با قی ہرمخلوق روزِ اوّل کی طرح ایک ہی جیسی زندگی گزارتی چلی آ رہی ہے۔
خدا کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات میں سے پیدا فرمایا۔ زندگی میں آنے والے اس اتار چڑھاؤ کو زینہ بنا کر آگے بڑھیں، نہ کہ بھنور کی زد میں زندگی کی خواہش ہی چھوڑدیں۔
شکریہ!

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔