ملاکنڈ میں جب سے بالغ رائے دہی کی ابتدا ہوئی ہے، اس وقت سے اب تک ہمیشہ اس پارٹی نے انتخابات جیتے ہیں جس کا منشور اور بیانیہ لوگوں کی خواہشات کے عین مطابق رہا ہو، جس نے لوگوں کی نبض پر ہا تھ رکھا ہو اور عوام کے ساتھ اس کا رابطہ مضبوط رہا ہو۔
پی ٹی آئی والوں نے اپنا کرپشن اور انصاف کا بیانیہ بلاجھجک ایسی شدت سے پیش کیا جس شدت کے ساتھ وہ 2013ء کے الیکشن میں عوام کے سامنے پیش کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنے مثبت اقدامات مثلاً صحت سہولت کارڈ، نادارشعرا کو اعزازیہ، میرٹ پر ملازمتیں، صحت اور تعلیمی بجٹ میں اضافے کا تذکرہ کیا، جس سے انھوں نے عوام سے ووٹ لینے میں کامیابی حاصل کی۔ انھوں نے اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کے دفاع کے سلسلہ میں مرکز میں حکومت نہ ہونے کا عذر پیش کیا، جس سے عوام نے ان کی کوتاہیوں کو نظر انداز کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملاکنڈ کے عوام نے پی ٹی آئی کے بیانیہ میں اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہوئے اسے کامیاب کرایا۔
مرکز اور دو صوبوں میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد اب پی ٹی آئی کو اپنے پیش کردہ ایجنڈے پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا اور عوام کی فلاح و بہبود اور ملک و قوم کے مسائل و مشکلات ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ عوام نے جس جوش و جذبے کے ساتھ ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، پی ٹی آئی کی حکومت کو اُسی جوش و جذبے سے ان کے اعتماد پر پورا اترنا ہوگا۔ اب تند و تیز بیانات اور لوگوں کو گرمانے والے پریس کانفرنسوں سے کام نہیں چلے گا۔ اگر انھوں نے عوام کو مایوس کیا، تو اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر انتخابات اور سٹیج والے بیانا ت اب آہستہ آہستہ ان کے گلے کا طوق بنتے جائیں گے۔
ضلع ملاکنڈ میں تعلیم، صحت، سی اینڈ ڈبلیو، پبلک ہیلتھ اور زراعت کے محکموں میں اچھی حکمرانی (گڈ گورننس) کو یقینی بنا کر کرپشن پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس طرح ان محکموں سے وابستہ تقریباً دس ہزار ملازمین اور علاقے کے عوام کو انصاف مل سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عوام کے تعاون کے بغیر حکومت کا کوئی پروگرام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ملاکنڈ سے منتخب ہونے والے صوبائی اور قومی اسمبلی کے امیدوار اور خاص کر وزیرِ مال شکیل خان کو کرپشن کو ختم کرنے کے لیے عزم کے اظہار کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی کرپشن کے خلاف موٹیویٹ کرنا چاہیے۔ کیوں کہ تمام محکموں میں چھوٹی چھوٹی بے ضابطگیوں کی ابتدا عوام کی طرف سے کی جاتی ہے۔ جس سے کسی ایک کو فائدہ اور دوسرے کی حق تلفی ہوتی ہے اور حکومتِ وقت مفت میں بدنام ہوجاتی ہے۔
یہاں میں محکمۂ تعلیم ملاکنڈ میں بے ضابطگی کے ایک واقعہ کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ کرپشن کے خاتمہ کے لیے حکومتِ وقت کے عزم، سرکاری اہلکاروں کے محکمانہ ضابطوں کی پاس داری اور عوام کا تعاون انتہائی ضروری ہے۔ ہوا یہ کہ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول جولگرام میں عربی کی ایک استانی محکمانہ ترقی پاکر گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری سکول (جی جی ایچ ایس) طوطہ کان ٹرانسفر ہوئی جس سے جی جی ایچ ایس جولگرام میں عربک ٹیچر کے سولہ گریڈ کا پوسٹ خالی ہوگیا۔ محکمۂ تعلیم کے اہلکاروں نے پہلے محکمۂ تعلیم کے پروموشن پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک جونیئر عربک ٹیچر کو پروموٹ کیا اور پھر ٹرانسفر پالیسی کو پامال کرتے ہوئے اس استانی کا تبادلہ جی جی ایچ ایس جولگرام کو کروایا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جونیئر استانی کے پروموشن آرڈر منسوخ ہوچکے ہیں اور عربک ٹیچر کے ڈسٹرکٹ کیڈر میں دو سینئر ترین استانیوں نے اس کے خلاف اپیل دائر کی ہے۔ اور دو ہزار پندرہ سے لے کر دو ہزار اٹھارہ تک ہر سال کی ترتیب شدہ سینیارٹی لسٹ کے لیے درخواست بھی دی ہے، لیکن محکمۂ تعلیم کے متعلقہ اہل کاروں نے اپنے اس غیر قانونی اقدام کو چھپانے کے لیے اپیل اور درخواست دونوں کو کارپٹ کے نیچے دبا دیا ہے۔ ملاکنڈ کے دوسرے محکموں میں اس قسم کی بے شمار بے ضابطگیاں ہوتی رہتی ہیں جس میں سرکاری اہل کاروں کے ساتھ عوام برابر کے شریک ہیں اور اس سے پی ٹی آئی کے ایجنڈے پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔
خیبر پختون خوا کے وزیرِمال شکیل خان، منتخب اراکین اسمبلی اور ضلعی حکومت گڈ گورننس کے لیے ایک ایسا آسان، سستا اور قابلِ عمل میکینزم واضح کریں جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کا فائدہ ہو اور کسی کا نقصان اور تضحیک نہ ہو۔ اس کے لیے پیشہ ور، معتبر اور ایمان دار لوگوں پر مشتمل ٹاسک فورس تشکیل دی جائے، جو رضاکارانہ طور پر نہ صرف محکمانہ بے ضابطگیوں کو مثبت اور اصلاحی انداز میں بے نقاب کرے بلکہ ڈیپارٹمنٹل اصولوں میں بہتری کے لیے تجاویز بھی دے۔ اس طرح پی ٹی آئی اپنے ’’ایجنڈے‘‘ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا آغاز کرسکتی ہے۔
ضلع ملاکنڈ کے عوام کو اچھی حکمرانی کے علاوہ بہت سے دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے جن میں لوگوں کی جائیداد کا ریکارڈ مرتب کرانا سرفہرست ہے۔ گذشتہ روز وزیرِ مال شکیل خا ن نے ایک اخباری بیان میں اس مسئلے کے حل کے لیے عزم ظاہر کیا ہے، جس سے عام لوگوں کے مابین تنازعات اور نچلی عدالتوں میں مقدمات کم ہوسکیں گے۔
تیسرا بڑا مسئلہ یہاں نشہ آور اشیا مثلاً آئس کی مارکیٹوں میں دستیابی ہے۔ اس کے لیے صوبائی اور ضلعی حکومتوں کے علاوہ ملاکنڈ کے باشندوں کو بھی ایک مؤثر مہم چلانے کی ضرورت ہے، تاکہ ملاکنڈ کے نوجوانوں کو تباہی سے بچایا جاسکے۔ ’’لا اینڈ آرڈر‘‘ کا کوئی بڑا واقعہ آئے دنوں میں سامنے نہیں آیا ہے، لیکن چوری کے واقعات تسلسل سے ہر روز پیش آتے ہیں۔ ان کی روک تھام کی غرض سے ’’لیوی فورس‘‘ کے لیے جدید ٹریننگ اور ضروری آلات کا انتظام کرنا ہوگا۔
بجلی اور پینے کے پانی کے مسئلے نے ایک نہ ختم ہونے والے بحران کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے وزیرِاعظم کوپاکستان کی سطح پر ہر علاقے میں ٹاسک فورس بنا کر اس کا جلد از جلد حل تلاش کرنے کی طرف قدم بڑھائیں۔
ملاکنڈ کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے اور جدید دور کی زراعت کا انحصار زراعتی قرضہ پر ہے۔ زرعی ترقیاتی بینک بٹ خیلہ اور درگئی کے کسانوں کو زراعتی قرضے فراہم کرتا ہے۔ مذکورہ بینکوں کے قرضہ کو ریکوری کے ساتھ لنک کرکے ضروت مند کسانوں کے قرضوں کی ضرورت کو پورا نہیں کیا جاسکتا۔ ممبر قومی اسمبلی جنید اکبر کو بینک کے صدر کے ساتھ ملاقات کرکے اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے، تاکہ ملاکنڈ میں زراعت ترقی کرسکے۔
پی ٹی آئی کے خلاف ذرائع ابلاغ میں یہ پراپیگنڈا ہوتا رہا ہے کہ پی پی پی حکومت کے منظور شدہ منصوبوں میں ان کی عدم دلچسپی نے علاقے کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس بات کا ادراک پی ٹی آئی والوں کو ہو چکا ہے، جو خوش آئند بات ہے۔ ان منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
بجلی کی مد میں جو رائلٹی ضلع ملاکنڈ کومل رہی ہے، اس فنڈ کو رکھنے اور خرچ کرنے کے طریقۂ کار کو شفاف بنا کر حکومت پر لوگوں کے اعتماد کوبڑھایا جائے۔
سرکاری ملازمین کا بنیادی مقصد سیاسی حکومت کے قانونی ایجنڈا کو نافذ کرنا اور عوام کو بلاامتیاز شفاف خدمات مہیا کرنا ہوتا ہے۔ جب تک سرکاری ملازم خواہ عہدے میں بڑا ہو یا چھوٹا، مذکورہ مقاصد کے لیے ذہنی طور پر راضی نہ ہو، تو حکومت کا ایجنڈا خواہ ’’ریاستِ مدینہ‘‘ جیسا مقدس کیوں نہ ہو، ناکامی سے دوچار ہوگا۔ اس صورتحال کا منطقی انجام یہ ہوگا کہ ایک دن حکومت والے اس صدا کی بازگشت کو ملاکنڈ کی گلی کوچوں میں سنیں گے ۔
نن بیا ھغہ تڑل او پرانستل ھغہ روزگا ر دے
شپیلئ دَ انقلاب تہ پوکے ورکہ اسرافیلہ
یعنی آج ایک بار پھر وہی پرانے روز و شب ہیں، وہی لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ اے اسرافیل! اب تم انقلاب کا صور پھونک ہی ڈالو۔
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔