مشہور امریکی مصنف او رامریکہ کے کئی امیر لوگوں کے مشیر ’’نپولین ہیل‘‘ اپنی کتاب "Think and grow rich” میں لکھتا ہے کہ کسی بھی کامیابی کا پہلا نکتہ ایک شدت والی خواہش ہوتا ہے اور پھر اس خواہش کی تکمیل کے لیے پختہ ایمان اور یقین آپ کے دل ودماغ میں ہونا چاہیے۔
پاولو کوئلو بھی اپنے ناولوں میں خواب کا ذکر کرتا ہے کہ اگر آپ کا کوئی خواب ہو، تو آپ کو ضروراس خواب کی تعبیر کے لیے محنت کرنی چاہیے اور اگر کوئی خواب دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، تو وہ اس خواب کو سچا ثابت کرنے کے لیے محنت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتاہے۔ اونچی اُڑان کی خواہش، آرزو یا تمنا کی مثال بیج کی طرح ہے جو ایک دن ایک بارآور درخت بن جاتا ہے۔ لیکن خواہش ایسی نہ ہو کہ وہ آپ کو سونے نہ دے اور آپ کے چین او ر سکون کو نقصان پہنچائے، بلکہ شدید خواہش ایسی ہونی چاہیے کہ آپ اس میں محنت کرنے کے مزے سے لطف اندوز ہوں۔
امریکی مصنف ’’نپولین ہیل‘‘ پانچ سو ان امیر شخصیات کی زندگیوں کے تجربات کا ذکر کرتا ہے جنھوں نے غربت اور اوسط تعلیمی پس منظر سے اپنے شان دار مستقبل بنانے کی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ایک کتاب میں اس نے شکاگو میں آگ لگنے کا واقعہ بیان کیا ہے جس میں سب کچھ خاکستر ہونے کے بعد سارے کاروباری لوگ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کھنڈرات پر واپس کاروبار شروع کرنے سے بہتر ہے کہ وہ کسی اور آباد جگہ پر اپنے کاروباری مراکزواپس کھولیں، لیکن ان میں سے ایک شخص جس کا نام ’’مارشل فیلڈ‘‘ تھا، وہ شگاگو ہی میں رہ گیا اور اس نے یہ تہیہ کیا کہ اس نے شگاگو ہی میں دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال بنانا ہے۔ بعد میں وہ اپنے خواب کی تعبیر میں کامیاب ہوگیا اور شکاگو میں اس نے آسمان کو چھوتا ہوا ایک بزنس ٹاؤر بھی تعمیر کیا۔ اگر امریکہ او ر یورپ میں لوگ اپنے خوابوں کی تعبیر میں کامیا ب ہوتے ہیں، تو سوات اور وزیرستان کے جنگ زدہ لوگ بھی مختلف شعبوں میں بڑی بڑی کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں۔ بہ شرط یہ کہ وہ پُرامید ہوں اور محنت سے اپنا کام کریں۔
ہالینڈ کا ’’روٹرڈیم‘‘ نامی شہر دوسری جنگ عظیم میں مکمل طور پر تباہ ہوا تھا، لیکن آج وہاں پر ایک نیا صنعتی شہر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر کسی کو جنگِ عظیم دوم میں اس کی تباہی کا معلوم نہ ہو، تو پھربھی وہاں کی سیر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ادھر بھی کوئی آفت گزری ہے اور سارے شہر کو واپس آباد کیا گیا ہے۔ کیوں کہ سارا شہر نیا ہے اور یورپ میں دوسرے شہروں کی نسبت ادھر بہت کم پرانی عمارات موجود ہیں۔ تو ہم بھی اپنے سوات، وزیرستان اور پشاور میں اپنے اپنے کاروبار اور دوسری سرگرمیاں پہلے سے بہتر طرز پر بحال کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ پشاور، سوات او ر وزیرستان میں ’’روٹر ڈیم‘‘ کی نسبت مادی طور پر اتنی تباہی نہیں مچائی گئی جتنی تباہی ہالینڈ کے روٹر ڈیم شہر میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد دیکھنے میں آئی، لیکن ایک بات میں ضرور کہتا ہوں کہ ہمارے علاقوں میں ذہنی اور فکری طور پر جتنی تباہی ہوئی ہے، اتنی فکری تباہی یورپ میں دوسری جنگ عظیم میں بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ وجہ یہ ہے کہ مصنفین کتابوں میں لکھتے ہیں کہ کسی بھی میدان میں کامیابی کے لیے آپ میں وسیع النظری اور برداشت کا مادہ بہت ضروری ہے، لیکن ان جنگوں کے دوران میں ہم بحیثیتِ قوم دنیاوی معاملات میں بھی برداشت اور وسیع النظری کا مادہ کھو چکے ہیں۔ تو ہم میں ہر ایک کو اپنے آپ میں یہ دو خصوصیات پیدا کرنا ہوں گی اور نئی دنیا کے تقاضوں کے مطابق اگر ہم نے کاروبار اور مارکیٹنگ کے نئے طریقے اپنائے اور اگر دنیاوی میدان میں نئی کتابوں اورتجربہ کار ماہرین سے نئی ٹیکنالوجی اور نئے خیالات کا استعمال سیکھا، تویقینی طور پر کامیابی ہمارا مقدر ہے۔
کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے شروعات بہت اہمیت رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کا آغاز اچھا ہو، تو سمجھو آپ آدھا کام کرگئے، لیکن ’’نپولین ہیل‘‘ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ عملی طور پر کامیاب لوگوں کی زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے، تو معلوم ہوگا کہ شروعات میں ہر ایک کامیاب آدمی کسی نہ کسی ایسی مشکل کا شکار ہوتا ہے جس سے اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے، لیکن اگر آپ میں صبر کا مادہ ہو اور حالات کے سامنے ڈٹ جانے کی صلاحیت ہو، تو اپنی کامیابی یقینی سمجھیں۔
’’شوارزینگر‘‘ نامی ایک امریکی شروع میں ایک تن ساز تھا، لیکن وہ پاولو کوئلو کے فلسفے کے مطابق اپنے خوابوں پریقین کرنے والا تھا۔ وہ پہلے ایک امیر کارباری آدمی بنا، لیکن وہ اس پر اطمینان کرنے کی بجائے بعدمیں ایک فلم سٹار بنا اور فلم سٹار بننے کے بعد وہ کیلیفورنیا کا گورنر بنا۔ اس نے شروع میں تن سازی کے حوالے سے ایک کتاب لکھی اور اس کے بعد خواتین کے لیے تن سازی پر مبنی ایک اور کتاب کا مصنف بنا۔ اس کے بعد وہ مختلف شہروں میں تن سازی کے مقابلوں کے پروگرام منعقد کرتا تھا۔اس طرح وہ اس حوالے سے ایک امیر کاروباری شخصیت بن گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے فلم سٹار بننے کے اپنے خواب پر کام کا آغاز کیا اور اُس وقت ہالی ووڈ کے سب سے مہنگے ایکشن فلم سٹار بننے میں کامیاب ہوگیا۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے زمینوں میں بھی سرمایہ کاری کی۔ اس کے علاوہ اس نے ایک ہی نام سے مختلف شہروں میں ہوٹلوں کا ایک سلسلہ بھی قائم کیا ان کوششوں کی وجہ سے وہ ایک ارب پتی بن گیا۔ آخرِکار اس نے لوگوں کے لیے فلاحی کام شروع کیے او ر 2003 ء میں کیلیفورنیا کے گورنر بنے۔
ٹھیک اسی طرح کی ایک مثال پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کی بھی ہے، جس نے کرکٹ کھیلنے کے بعد شوکت خانم کی طرح فلاحی کام کیے اور سیاست دان بن کر 22 سال کی جدوجہد کے بعد وزیر اعظم بن گئے۔
کہنے کا مقصد ہے کہ اگر کسی میں بھی خواب دیکھنے اور انتہائی خواہش رکھنے کے بنیادی نکتے سے لے کر صبر ، وسیع النظری اور ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرنے او ر کامیابی حاصل کرنے کے پختہ ایمان اور یقین کی خصوصیات ہوں، تو وہ کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔
قارئین، اگر کامیابی کے ان اصولوں پرعمل کیا جائے، تو سوات، وزیرستان اور پشاور ریجن کے لوگ اپنے اپنے علاقوں میں نئے طرز سے اقتصادی کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔ سیاحت، باغات، معدنیات اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت وہ شعبے ہیں جن میں پہلے سے ہمارے لوگ کچھ نہ کچھ کام کرچکے ہیں اور عملی تجربہ رکھنے والے لوگ بھی ہمارے پاس ہیں، لیکن ہمیں اپنی سوچ میں نئے دور کے نئے تضاضوں کے مطابق تبدیلی لانی ہوگی۔ ہمارے مشران میں اپنے نوجوانوں پر اعتماد نہ کرنے کی ایک خرابی ہے جس کو دور کرنا ہوگا۔ جب تک گھر کا بڑا یا مشر زندہ ہوتا ہے، تو اپنے نوجوان بیٹوں اور بیٹیو ں کو کسی نئی تجارتی سرگرمی شروع کرنے کے لیے پیسہ نہیں دیتا۔ اگربیٹے اور بیٹیاں پڑھی لکھی ہوں اور کسی کام کا معمولی تجربہ رکھتی ہوں، تو مشران کو چاہیے کہ ان کو اپنے خوابوں کی تعبیر کا موقع دیں۔ نئے نظریات اور نئی طرزسے تجارتی و معاشی سرگرمیاں شروع کرنے میں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔