ریاست سوات کے بعض انتظامی امور کا جائزہ

ریاست سوات کا جھنڈا

بھٹو صاحب جب پاکستان کے اولین سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے، تو انہوں نے آرمی چیف سمیت کئی جرنیلوں کو بہ یک جنبش قلم برطرف کردیا۔ ساتھ ہی انہوں نے سول سروس سٹرکچر میں ’’لیٹرل انٹری‘‘کے نام سے کئی فوجی افسروں کو پولیس اور ضلعی انتظامیہ میں عہدے عطا کئے۔ پاکستان کے مروجہ سروس رولز میں یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔ اب تو سرکاری ملازمین معمولی شکایت پر اعلیٰ عدالتوں میں جاکر حکومت کے احکامات منسوخ کرواتے ہیں، لیکن بھٹو صاحب کے آگے کسی میں دم مارنے کی ہمت نہیں تھی۔ اسی لیے سول سروس کی طرف سے کوئی احتجاج، مزاحمت یا قانونی راستہ اختیار کرنے کی نوبت نہ آئی۔

ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم)
ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم)

اُن دنوں سوات کے ادغام کو دو سال ہی گزرے تھے، تو سوات کے رہنے والوں کے لیے یہ صورت حال اس لیے نامانوس نہ تھی کہ ریاست سوات میں والی صاحب بھی کبھی کبھی ریاستی فوج کے بعض افسروں کو سول محکمہ جات، خصوصاً انتظامیہ میں ’’انڈکٹ‘‘ کرتے تھے۔ اور چوں کہ ریاست کے انتظامی افسروں کو عدالتی اختیارات بھی حاصل تھے، تو فوج سے آئے ہوئے یہ افسران بھی عدالتی امور کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ اس طرح ہم سوات میں میجر اشرف کے ساتھ کیپٹن ارشد فرید کو ڈی سی سوات دیکھ رہے تھے۔ پھر پولیس میں کئی کیپٹن اور میجر وغیرہ ایس پی اور ڈی آئی جی نظر آرہے تھے۔
اگر ہم اس پوائنٹ سے واپس ریاستِ سوات کی طرف مڑ جائیں، تو ان چند مشہور افسروں کا ذکر بے جا نہ ہوگا، جو فوج سے سول اور یا پھر سول سے واپس فوج کی طرف گئے تھے۔ چوں کہ ہماری رہائش سیدوشریف کے محلہ افسر آباد میں تھی۔ وہیں ہماری پیدائش ہوئی، پلے بڑھے، ملازمت میں آئے۔ تو اکثر اس قسم کی تبدیلیاں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ اس حوالہ سے پہلا واقعہ جو مجھے اس وقت یاد آرہا ہے، میں سوات کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے عرض کرتا ہوں۔ وہ واقعہ ارکوٹ کے عبدالجلیل خان کی بحیثیت تحصیلدار بابوزیٔ تقرری اور افسر آباد میں اپنی عدالت کے قریبی گھر میں آمد تھا۔ موصوف ریاستی فوج میں صوبیدار میجر تھے۔ ان کے ٹانگوں سے معذور ایک بیٹے عبدالکبیر ہمارے کلاس فیلو تھے۔ اُن دنوں ہم ہائی سکول شگئی میں پڑھتے تھے اور عبدالکبیر ہمارے ساتھ بیساکھیوں کے سہارے ٹک ٹک کرتے سکول جاتے تھے۔ عبدالجلیل خان ایک بڑے خان تھے اور خان بہادر سلطنت خان آف جرہ کے داماد تھے۔ کچھ عرصہ بعد وہ واپس فوج میں چلے گئے۔

ریاست سوات دور کا سیدو شریف
ریاست سوات دور کا سیدو شریف

ایک اور تحصیلدار جو ان ہی کی طرح صوبیدار میجر تھے، تحصیلدار بابوزیٔ کی حیثیت افسر آباد آئے۔ ان کا نام سیف الرحمان تھا اور چکیسر کے مشہور خان ’’امیز خان‘‘ کے بیٹے تھے۔ سیف الرحمن کے ایک بیٹے سلطنت خان ہمارے ہم عمر تھے۔ وہ بھی بعد میں چکیسر جاکر ریاستی ملیشیا میں ریٹائرمنٹ تک صوبیدار میجر رہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا کہ ایک اور صوبیدار میجر ’’سرفراز خان‘‘ نام کے تحصیلدار بابوزیٔ بن کر آئے۔ موصوف بعد میں کمانڈر روڈز اور کمانڈر پولیس کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ادغام کے بعد پاکستانی پولیس سے ڈی ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ سرفراز خان کمانڈر صاحب مینگورہ کے ایک سر بر آوردہ خاندان کے فرد تھے۔ ان کے ایک بھائی ’’بخت افسر خان‘‘ ریاستی حاکم تھے اور کئی علاقوں میں فرائض انجام دیتے رہے۔ موصوف ایک شریف النفس اور رحم دل حاکم تھے۔ ان کی میٹھی باتیں اور لہجے کی شیرینی آج تک کانوں میں رس گھولتی محسوس ہوتی ہے۔ اللہ دونوں بھائیوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ یہ ذکر باید بے جانہ ہوگا کہ کمانڈر سرفراز خان صاحب، مشہور ماہر امراض سینہ ڈاکٹر نثار خان کے والد تھے۔

والئ سوات
والئ سوات

اسی طرح ایک اور فوجی افسر جن کا ذکر مرحوم والی صاحب نے پروفیسر فریڈرک بارتھ کو انٹرویو دیتے وقت بہت اچھے الفاظ میں کیا ہے، وہ محمد شیرین کپتان صاحب تھے۔ ان کے بارے میں والی صاحب فرماتے ہیں کہ وہ بہت دیانتدار، قابل اور کرپشن سے پاک افسر تھے۔ والی صاحب نے ان کو فوج سے ریٹائرڈمنٹ کے بعد ’’منصف یا arbitratorـ مقرر کیا تھا اور ان کی عملداری پوری ریاست کی حدود تک مؤثر تھی۔ وہ اکثر مختلف قبیلوں یا خاندانوں کے زمینی تنازعات کے حل کے لیے والی صاحب کے حکم سے جاکر موقعہ پر مناسب فیصلہ کرتے تھے۔ ان کے ساتھ اوڈیگرام کے عبدالخالق خان بھی منصف کی حیثیت سے جاتے تھے۔
اس سلسلے کے ایک اور افسر ’’غوریجہ‘‘ کے محمد عزیز خان تھے جو اباسندھ کوہستان کی کئی تحصیلوں میں فرائض انجام دینے کے بعد صوبیدار میجر کی پوسٹ پر واپس آکر اپنے گاؤں میں مقیم ہوئے۔
میری رائے میں یہ معلومات ان قارئین کرام کے لیے یقینا دلچسپی کا باعث ہوں گے جو ریاست کے انتظامی امور سے دلچسپی رکھتے ہیں یا کسی تحقیقی مقالے پر کام کررہے ہیں۔ ابھی کچھ افسروں کے بارے میں ذکر کرنا باقی ہے جو اس وقت ذہن میں نہیں آرہے۔ زندگی رہی، تو کسی اور نشست میں پیش کروں گا۔