’’پورس‘‘ قدیم ہندوستان کا نامور اور بہادر حکمران تھا، جس نے سکندر اعظم کی ٹڈی دل فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پورس کی ریاست دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان واقع تھی۔ سکندر اس وقت پوری دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے یونان سے نکل پڑا تھا۔ بادشاہ بنتے وقت سکندر کی عمر صرف 20سال تھی لیکن اس وقت بھی وہ بہت ذہین، بہادر اور امید پسند جرنیل اور حکمران تھا۔ اس کا عزم تھا کہ وہ ساری دنیا کو فتح کرے گا۔ مقدونیہ (Macedonia) یونان کی ایک چھوٹی ریاست تھی۔ آس پاس کے بہت سے چھوٹے چھوٹے ملک اس کے دشمن تھے۔ سکندر نے سب سے پہلے ان کو زیر کیا اور 334 قبل از مسیح میں ایران پر حملہ کرنے کا عزم کیا جو یونان کا ہمیشہ سے دشمن چلا آ رہا تھا۔
موسمِ بہار کے شروع میں سکندر اعظم 30 ہزار پیادہ اور 5 ہزار سوار فوج لے کر ایشیا کی طرف بڑھا اور ترکی میں داخل ہوگیا۔ مئی کے مہینے میں اس نے دریائے گرینی کس کے کنارے بہت بڑے ایرانی لشکر کو شکست دی جس کی قیادت شہنشاہِ داریوس کر رہا تھا۔ حالاں کہ داریوس کی فوج کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ سکندرِ اعظم نے ایران کو فتح کر لیا۔ ایران کے دائیں جانب باختر (اب افغانستان) سے ہوتا ہوا سکندر اعظم ہندوستان کے شمالی میدانی علاقے میں داخل ہوا۔
326قبل از مسیح میں سکندر نے دریائے سندھ کو عبور کرکے جہلم کے درمیان ٹیکسلا کی ریاست میں قدم رکھا۔ جہاں کا ’’راجہ امبھی‘‘ حکمران تھا۔ راجہ امبھی، راجہ پورس سے عداوت رکھتا تھا۔ راجہ امبھی نے محض پورس سے مخاصمت کی بنا پر سکندر اعظم کی اطاعت قبول کرلی اور 700 مسلح سوار 3 ہزار پیادہ سپاہی اس کی کمان میں دے دیے۔ اس کے علاوہ بہت سا مال اور زر و جواہر بھی بطورِ تحفہ سکندر کو پیش کیا اور اسے راجہ پورس پر حملہ کرنے کی دعوت دی، جو اس نے قبول کرلی۔
دوسری طرف راجہ پورس نے سکندر اعظم کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ سکندر دریائے جہلم تک بلا روک ٹوک بڑھتا گیا۔ دوسرے کنارے پر راجہ پورس 30 ہزار پیدل فوج، 4 ہزار سوار، 2 سو جنگی ہاتھی اور 3سو رتھ لے کر مقابلے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ سکندر نے رات کے وقت دریائے جہلم عبور کیا اور دن چڑھے تک 12 ہزار فوج کے ساتھ پورس کی فوج کو گھیر لیا۔ سکندر نے یہ حملہ اچانک کیا تھا۔ دونوں فوجوں میں نہایت شدید جنگ ہوئی۔ یونانی تیر اندازوں نے ہاتھیوں کا منھ پھیر دیا اور وہ اپنی ہی فوج کو روندتے ہوئے بھاگ نکلے۔ بہت سی ہندوستانی فوج میدانِ جنگ میں کام آئی۔ راجہ پورس کو شکست ہوئی اور وہ زخمی حالت میں گرفتار کرکے سکندر اعظم کے سامنے پیش کیا گیا۔ سکندر نے پورس سے پوچھا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ پورس نے بڑی بہادری سے مردانہ وار جواب دیا: ’’جو ایک بادشاہ کو دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرنا چاہیے۔‘‘
سکندر اعظم اس جواب سے بے حد متاثر ہوا اور باج گزار کی حیثیت سے نہ صرف اس نے اپنے ملک پر ہی بحال کر دیا بلکہ سارے پنجاب کی نگرانی بھی اسے سونپ دی۔ سکندر اعظم اور راجہ پورس کی یہ مشہور لڑائی 326 قبل از مسیح میں دریائے جہلم کے کنارے لڑی گئی۔ اسی جنگ میں سکندر کا سب سے پیارا گھوڑا مر گیا جس کا نام ’’جہلم‘‘ تھا۔ سکندر نے اسی گھوڑے اور اپنی فتح کی یادگارمیں دریا کے کنارے دو شہر آباد کیے۔ پہلا شہر بالکل اسی مقام پر واقع تھا جہاں لڑائی ہوئی تھی اور دوسرا دریا کے اُس پار یونانی کیمپ میں بسایا گیا۔
واپسی پر دریائے جہلم پر اس کی سپاہ نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ کیوں کہ اس کے بہت سے سپاہی بھوک اور بیماری سے ہلاک ہوگئے۔ چناں چہ اس نے اپنے ایک جرنیل ’’نیارکس‘‘ کی زیر قیادت ایک بحری بیڑا سمندر کے راستے واپس بھیجا۔ باقی فوج کے دو حصے کیے۔ ایک حصہ جس کے ساتھ ہاتھی اور سامانِ غنیمت تھا، الگ بھیجا۔ دوسرا حصہ اپنی زیرِ قیادت رکھا اور مکران (بلوچستان) کو جنوبی ایران سے گزرتا ہوا ’’سوس‘‘ پہنچا۔ جہاں اس نے باختر کے حکمران ’’آگزیارتیس‘‘ کی بیٹی شہزادی رخسانہ (روخانہ) سے شادی کی۔ (عالمی جنگوں کا انسائیکلو پیڈیا از عبدالوحید ناشر نگارشات پبلشرز، صفحہ نمبر 22 اور 23 سے ماخوذ)