سوات کے قومی و صوبائی حلقوں کا مختصر جائزہ

جیسا کہ پورے پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کے لیے بڑے زور و شور سے تمام سیاسی پارٹیوں کی انتخابی مہم جاری ہے۔ اسی طرح ضلع سوات میں بھی قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر انتخابی مہم آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ سوات کے لیے ایک قومی نشست کا اور ایک صوبائی نشست کا اضافہ خوش آئند ہے۔ سوات کی بیس لاکھ آبادی میں حق تو ایک ایک نشست سے زیادہ بنتا تھا، لیکن خیر، یہ بھی غنیمت ہے کہ مذکورہ اضافہ کردیا گیا ہے۔
اُمیدواروں پر حالیہ خودکش دھماکوں کی وجہ سے تمام اُمیدواروں بالخصوص مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے، جس سے انتخابی مہم ماند پڑگئی ہے۔ اس کے باوجود تمام پارٹیوں کے سربراہوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
2013ء کے الیکشن میں ہوا کا رُخ تحریک انصاف کی طرف تھا، جس کے نتیجہ میں سات صوبائی نشستوں میں چھے پر کامیابی حاصل کی تھی۔ پارٹی دو قومی نشستوں کو بھی آسانی کے ساتھ جیت گئی تھی۔
پورے پختونخوا اور بالخصوص سوات میں یہ بات پکی ہوچکی ہے کہ یہاں کے عوام صرف ایک پارٹی کو ایک بار ووٹ دیتے ہیں۔ اب تک سب پارٹیوں کو موقع دیا چکا ہے۔ سوات کی سابقہ انتخابی تاریخ کی روشنی میں اس بار تحریک انصاف کو بالکل مسترد ہونا چاہیے تھا، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوگا۔ ایک نکتہ تو یہ کہ تحریک انصاف کے بعد ایک نیا نعرہ، پارٹی یا ٹرینڈ نہیں ملا جس سے پختونوں کو دھوکا دے کر مائل کیا جاسکے۔ دوسرا، آزمائی ہوئی پارٹیوں کی پالیسیوں میں اتنا دم نہیں کہ وہ لوگوں کو متاثر کرکے تحریک انصاف سے بدظن کرسکیں۔ ہاں، اتنا ضرور ہوا ہے کہ کچھ سنجیدہ قسم کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کے بعض کھوکھلے نعروں کی مخالفت کرتی ہے۔ زیادہ تر سرکاری ملازمین اور بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو تحریک انصاف کی بدعنوانی اور بے انصافی کے شکار ہیں اور پارٹی کے مخالف نظر آتے ہیں۔

2013ء کے الیکشن میں ہوا کا رُخ تحریک انصاف کی طرف تھا، جس کے نتیجہ میں سات صوبائی نشستوں میں چھے پر کامیابی حاصل کی تھی۔ پارٹی دو قومی نشستوں کو بھی آسانی کے ساتھ جیت گئی تھی۔

ایک بڑا حلقہ ایسا بھی ہے جو تحریکِ انصاف کی پالیسیوں کی مخالفت کرتا ہے۔ اس حلقہ کے بقول، عمران خان کے پیچھے نادیدہ قوتیں اور خلائی مخلوق کار فرما ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر عمران کو اقتدار مل بھی جائے، تو وہ ایک کٹھ پتلی اور بے اختیار وزیراعظم ہوگا۔ بعض ایسے لوگ بھی مقدار میں زیادہ ہیں جو اقتدار والی پارٹی سے نالاں ہوتے ہیں۔ کیوں کہ یہ ممکن نہیں کہ سب کو راضی کیا جاسکے۔ بہرحال ان سب کے باوجود زیادہ تر لوگ تحریک انصاف کی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں اور عام ووٹرز ابھی تک عمران خان کے سحر سے باہر نہیں نکلے ہیں۔
قارئین،یہ کہنا بجا ہوگا کہ 2018ء کے الیکشن میں ایک بار پھر ہوا کا رُخ تحریک انصاف کی طرف ہے، لیکن اب کی بار عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی تھوڑا بہت ہوا کا رُخ اپنی طرف موڑنے کی صلاحیت رکھنے کی قابل ہوچکی ہیں۔
اگر پاکستان پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (نظریاتی) ایک دوسرے کے ساتھ انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی کوشش کرتیں، تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا، لیکن وہ ایسا نہ کرسکے، لہٰذا اُنہیں مقابلہ سے باہر تصور کیجیے۔
اس بار متحدہ مجلس عمل میں وہ دم خم نہیں جو 2002ء کے الیکشن میں تھا۔ ان کے ساتھ عوام کو متاثر کرنے کے لیے کوئی متاثر کن پالیسی بھی ان کی نہیں۔ لہٰذا متحدہ مجلس عمل بھی مقابلے کے میدان میں پیچھے جا رہی ہے۔ البتہ اس سے ایک آدھ سیٹ پر مقابلہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس طرح عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن کو تحریک انصاف کو ہرانے کے لیے ایک مضبوط اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت تھی جو انہوں نے محسوس ہی نہیں کی۔ اگر دونوں سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے اور اتحاد بنانے میں کامیاب ہوجاتے، تو تحریک انصاف کو آسانی کے ساتھ شکست دی جا سکتی تھی۔ اب دونوں کی تنہا پرواز سے کافی حد تک فائدہ تحریک انصاف کو پہنچے گا۔

اس بار متحدہ مجلس عمل میں وہ دم خم نہیں جو 2002ء کے الیکشن میں تھا۔

دوسری طرف تحریک انصاف کا ووٹ بینک 2013ء کے مقابلہ میں اس الیکشن میں کم نظر آتا ہے، جس سے ان کی جیت شکست میں بدل سکتی تھی، لیکن تحریک انصاف کی یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ سوات میں نئے رجسٹرڈ ووٹ کی تعداد میں 2 لاکھ 11 ہزار 687 کا اضافہ ہوچکا ہے، جس میں زیادہ تر تحریک انصاف سے متاثر ووٹ ہے یعنی نوجوان طبقہ۔ لہٰذا مذکورہ کمی یہ نئے ووٹرز پورا کر دیں گے۔ اس لیے تحریک انصاف کو زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
اس طرح نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے اگر ایک طرف بعض اُمیدواروں کو کافی مشکلات درپیش ہیں، تو دوسری طرف بعض امیدواروں کی مشکلات کافی حد تک ہوچکی ہیں۔
اگر اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لیا جائے، تو بعض حلقوں میں آزاد امیدواروں نے بھی جیتنے والے اُمیدواروں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ کیوں کہ وہ ان کے ووٹ بینک پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اکثر اُمیدواروں کی اپنے حلقے میں گرفت مضبوط نہیں۔ بعض علاقوں میں ووٹ بینک زیادہ ہے، تو بعض علاقوں میں کم اور بعض میں بالکل نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی بنا پر زیادہ تر اُمیدواروں کی پوزیشن غیر مستحکم دکھائی دیتی ہے۔
قارئین، یہ بھی حقیقت ہے کہ آبادی کی ایک بڑی تعداد کسی بھی پارٹی کو ووٹ ڈالنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ وہ پاکستان کے موجودہ جمہوریت اور آمریت دونوں کو ظالمانہ نظام مانتی ہے، چہروں کے رد و بدل سے بدظن ہوچکی ہے اور کسی تصوری انقلاب کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ بہت سے نوجوانوں نے الیکشن کے دن کو انجوائے کرنے کے لیے پُرفضا مقامات کی طرف ٹور پر جانے کا پروگرام بنایا ہوا ہے۔ لہٰذا ووٹ ڈالنے کی شرح میں کمی ہونے کا امکان ہے۔
قارئین، میرے سروے کے مطابق سوات کی آٹھ صوبائی اور تین قومی نشستوں کی صورت حال مندرجہ بالا حالات و واقعات کی روشنی میں مختصراًً عرض کرتا چلوں کہ پی کے 2 سوات میں مسلم لیگ ن کے امیر مقام، عوامی نیشنل پارٹی کے سابق ایم پی اے جعفر شاہ اور تحریک انصاف کے شرافت علی کے مابین سخت مقابلہ ہوگا۔ اس حلقے میں الیکشن کمیشن کے مطابق کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 156023 ہے۔ اس حلقے میں امیر مقام چند ووٹوں کی لیڈ سے جیت سکتا ہے۔
اسی طرح پی کے 3 میں تحریک انصاف کے ڈاکٹر حیدر علی خان، مسلم لیگ ن کے سردار خان، متحدہ مجلس عمل کے علی شاہ خان ایڈوکیٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے قجیر خان کے درمیان مقابلہ ہورہا ہے۔ اس حلقہ میں ڈاکٹر حیدر علی خان کی جیت میں سخت رکاوٹ حائل ہے۔
پی کے 4 میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 146233 ہے۔ اس حلقے میں مسلم لیگ ن کے امیر مقام، عوامی نیشنل پارٹی کے عاصم اللہ خان، متحدہ مجلس عمل کے ثناء اللہ خان اور تحریک انصاف کے سابقہ ایم پی اے عزیز اللہ گران کے درمیان دلچسپ مقابلہ کی توقع ہے۔ اس حلقے میں مکمل گرفت کسی بھی اُمیدوار کی نہیں۔ بعض جگہوں پر ایک، تو بعض پر دوسرے کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے لیکن نسبتاً یہ مقابلہ امیر مقام کے حق میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
پی کے 5 میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 156106ہے۔ اس حلقے میں تحریکِ انصاف کے فضل حکیم، متحدہ مجلس عمل کے محمد امین، عوامی نیشنل پارٹی کے واجد علی خان اور مسلم لیگ ن کے ارشاد علی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ اس حلقے میں انتخابی مہم زور و شور سے آخری مراحل میں ہے۔ تمام پارٹیوں کے اُمیدوار پراُمید نظر آ رہے ہیں لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق واجد علی خان اور ارشاد علی مقابلے میں پیچھے ہیں، یہاں پر اصل مقابلہ فضل حکیم اور محمد امین کے درمیان متوقع ہے۔ فضل حکیم کے ووٹ بینک میں کافی کمی آئی تھی، لیکن یہ اُن کی خوش قسمتی ہے کہ گذشتہ انتخابات میں اب اس حلقے میں 12042 نئے ووٹرز رجسٹر ہوچکے ہیں۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے جن میں زیادہ تر نوجوانوں کا رجحان فضل حکیم کی طرف ہے۔ فضل حکیم کے ووٹ بینک کی کمی کا نقصان یہ نئے ووٹرز پوری کر دیں گے۔ اس سیٹ کا تجزیہ کافی مشکل ہے، لیکن ہوسکتا ہے کہ سخت مقابلے کے بعد فضل حکیم یہ سیٹ جیت جائیں۔

پی کے 5 میں اصل مقابلہ ایم ایم اے کے محمد امین اور پی ٹی آئی کے فضل حکیم کے درمیان ہے۔

پی کے 6 میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 150497 ہے۔ اس حلقے میں مسلم لیگ ن کے سید حبیب علی شاہ، تحریک انصاف کے ڈاکٹر امجد اور عوامی نیشنل پارٹی کے شیر شاہ خان کے درمیان سخت مقابلہ ہو رہا ہے۔ حبیب علی شاہ، شیر شاہ خان کو پیچھے چھوڑ کر آہستہ آہستہ اپنی پوزیشن کو مضبوط بنا رہا ہے۔ ڈاکٹر امجد کی پوزیشن بھی مستحکم ہے لیکن ان کو یہ سیٹ جیتنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت پڑے گی۔
پی کے 7 میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 154271 ہے۔ اس حلقے میں عوامی نیشنل پارٹی کے وقار احمد خان، تحریک انصاف کے ڈاکٹر امجد، متحدہ مجلس عمل کے حسین احمد کانجو اور مسلم لیگ ن کے عبدالغفور خان کے درمیان بھی سخت مقابلہ ہو متوقع ہے، لیکن کانٹے کا مقابلہ ڈاکٹر امجد اور وقار احمد خان کے درمیان متوقع ہے۔ اس طرح حسین احمد کانجو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہوسکتا ہے یہ سیٹ وقار احمد خان بہت ہی کم ووٹوں کی لیڈ سے جیت جائیں۔
پی کے 8 میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 143746ہے۔ اس حلقے میں تحریک انصاف کے محب اللہ خان، عوامی نیشنل پارٹی کے شیر شاہ خان اور مسلم لیگ ن کے عظمت علی خان کے درمیان مقابلہ ہے۔ یہاں پر محب اللہ خان اور شیر شاہ خان ففٹی ففٹی جا رہے ہیں۔ ان میں، مَیں کوئی رائے دینے سے قاصر ہوں، لیکن بہت ہی کم ووٹوں سے دونوں میں سے کوئی ایک جیتے گا۔
پی کے 9 میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 140920ہے۔ اس حلقے میں تحریک انصاف کے محمود خان اور عوامی نیشنل پارٹی کے محمد ایوب خان اشاڑے کے درمیان سخت مقابلہ کے بعد محمود خان جیت کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
قارئین، اور اب آتے ہیں NA2کی طرف اس میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 382974 ہے۔ اس حلقے میں مسلم لیگ ن کے امیر مقام، تحریک انصاف کے ڈاکٹر حیدر علی خان اور عوامی نیشنل پارٹی کے راجہ ممتاز چموٹ کے درمیان سخت مقابلہ ہو رہا ہے۔ اصل مقابلہ شیر اور بلّے کے درمیان ہے اور شیر کی پوزیشن مستحکم دکھائی دے رہی ہے۔
اس طرح NA3 میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 401124 ہے۔ اس حلقے میں تحریک انصاف کے سلیم الرحمان، عوامی نیشنل پارٹی کے عبدالکریم خان، مسلم لیگ ن اور متحدہ مجلس عمل کے متفقہ اُمیدوار شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے شہر یار امیر زیب کے مابین سخت مقابلہ کی توقع ہے۔ اس حلقے میں کسی بھی اُمیدوار کی پوزیشن واضح نہیں۔ کوئی بھی اُمیدوار جیت سکتا ہے، لیکن فی الحال تینوں میں سے سلیم الرحمان واضح دکھائی دے رہا ہے۔
NA4 میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 409013ہے۔ اس حلقے میں تحریک انصاف کے مراد سعید، عوامی نیشنل پارٹی کے (ر) بریگیڈیئر محمد سلیم خان، مسلم لیگ ن کے فیروز شاہ خان ایڈوکیٹ اور متحدہ مجس عمل کے قاری محمود کے درمیان مقابلہ ہے، جب کہ اصل مقابلہ مراد سعید اور محمد سلیم خان کے درمیان ہے۔ دونوں کی پوزیشن مستحکم ہے، لیکن جنون کے پروپیگنڈے کا فائدہ مراد سعید کو ہوگا۔
تمام حلقوں کا جائزہ لینے کے بعد بھی یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا، کوئی بھی اُمیدوار جیت سکتا ہے۔ 25جولائی 2018ء کی شام حتمی طور پر معلوم ہوجائے گا کہ کون کتنا پانی میں ہے؟ تمام ہارنے والے اُمیدواروں سے پیشگی معذرت اور جیتنے والے اُمیدواروں کو مبارک باد۔

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔