یہ جنگ سلطان شہاب الدین محمد غوری اور دہلی کے حکمران پرتھوی راج چوہان (رائے پٹھورا) کے درمیان ہوئی۔ پرتھوی راج شمالی ہند کے راجاؤں میں طاقتور ترین راجہ تھا۔ اس بہادر اور قابل حکمران کو ’’رائے پٹھورا‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتاہے۔ اس نے اپنے ہمسایہ راجپوت حکمرانوں کے ساتھ کئی جنگیں لڑیں۔ پرتھوی نے غوری کی غزنوی سلطنت کے کچھ حصے بھی اپنی سلطنت میں شامل کرلیے۔ ان علاقوں کی واپسی ہی ’’جنگِ تراوڑی‘‘ کا سبب بنی۔
1199ء (587ھ) میں سلطان محمد غوری ’’بٹھنڈا‘‘ کا قلعہ فتح کرکے واپس لوٹنے ہی والا تھا کہ پرتھوی راج چوہان ایک بڑے لشکر کے ساتھ مقابلے پر صف آرا ہوگیا۔ یہ لڑائی ’’ترائن‘‘ (تراوڑی) کے میدان میں ہوئی۔ پرتھوی راج نے محمد غوری کا مقابلہ دو لاکھ سپاہیوں اور تین ہزار جنگی ہاتھیوں کی فوج سے کیا۔ بڑے گھمسان کا رَن پڑا۔ لیکن عین اس وقت جب غوری ’’قلب فوج‘‘ کو کامیابی سے لڑا رہا تھا۔ ہندو افواج نے مسلمانوں کا دایاں اور بایاں بازو توڑ دیا۔ سلطان غوری پھر بھی نہایات بہادری اور جواں مردی سے لڑتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ گھوڑے سے زخمی ہوکر نیچے گر پڑا۔ مگر ایک جاں نثار سپاہی لپک کر سلطان کے پیچھے ہو بیٹھا اور گرتے کو سنبھال کر میدانِ جنگ سے نکال لے گیا۔ مسلمانوں کو شکست ہوئی اور انہوں نے لاہور آکر دم لیا۔
اس شکست نے سلطان محمد غوری کا دن رات کا چین حرام کر دیا۔ اگلے برس 1192ء (588ھ) میں وہ شکست کا دھبا دھونے کے لیے ایک لشکرِ جرار لے کر لاہور آیا اور پرتھوی راج کو حملے کی دعوت دی۔ اس دفعہ سلطان محمد غوری پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہندوستان آیا تھا۔ حملے کی اس دعوت پر پرتھوی راج بھی غیظ و غضب میں آگیا اور اس نے تمام راجاؤں کو اپنی امداد کی دعوت دی۔ تقریباً ڈیڑھ سو ہندو راجاؤں نے پرتھوی راج کا ساتھ دیا۔ ایک بار پھر ’’تراوڑی‘‘ کے میدان میں معرکۂ کارزار گرم ہوا۔ سلطان محمد غوری نے اپنے لشکر کے چار حصے کرکے چار سپہ سالاروں کی قیادت میں دیے کہ باری باری حملہ کریں۔ راجپوت بھی دائیں بائیں سے درست ہو کر بڑی بہادری اور دلیری سے لڑے۔ دوپہر تک جنگ کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ سلطان غوری نے فوج کو منظم پسپائی کا حکم دیا۔
ہندو فوج نے خیال کیا کہ سلطانی فوج کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں۔ لہٰذا وہ بے ترتیبی سے ان کا پیچھا کرنے لگی۔ اس پر سلطانی فوج کے تازہ دم دستے نے بھی حملہ کر دیا۔ شدید گھمسان کی جنگ کے بعد راجپوتوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ’’رائے پٹھورا پرتھوی راج‘‘ ہنگامۂ کارزار میں مارا گیا۔ مسلمانوں کی یہ فتح بہت بڑی کامیابی کی حامل تھی۔ چنانچہ مسلم فوج فتح کے پرچم لہراتی ہوئی پہلی بار دہلی میں داخل ہوئی۔
سلطان محمد غوری نے دہلی اور اجمیر کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور قطب الدین ایبک کو مفتوحہ سلطنت کا حاکم بنا کر واپس چلا گیا۔ (“عالمی جنگوں کا انسائیکلو پیڈیا” از عبدالوحید ناشر نگارشات پبلشرز، صفحہ نمبر 62 سے ماخوذ)