افضل توصیف 18 مئی 1936ء کو سمبلی ضلع ہوشیارپور میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام چودھری مہدی خاں تھا۔ بی اے تک تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی۔ ایم اے انگلش اور اردو گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس سے منسلک رہیں۔
افضل توصیف اردو اور پنجابی کی معروف نثر نگار ہیں۔ ان کی متعدد نثری تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ انھوں نے پنجابی افسانے بھی تخلیق کیے ہیں۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’ٹاہلی میرے بچڑے‘‘ 1988ء میں شائع ہوا ہے۔ افضل توصیف ایک بھرپور مزاحمتی تخلیق کار کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ ان کے افسانوں میں ترقی پسندانہ سوچ کے تحت مزدوری کرنے والی غریب عورتوں کے مسائل اور ان کی تکالیف کو خاص طور پر موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کے ہاں بنیادی مسئلہ غربت اور بھوک ہے۔ تاہم ان موضوعات کو نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کے ہاں بنیادی مسئلہ غربت اور بھوک ہے۔ تاہم ان موضوعات کو نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ معاشرتی تضادات اور معاشرت کے دوہری قدروں کے بطن سے جنم لینے والے مسائل ان کے افسانوں میں روپ بدل بدل کر سامنے آتے ہیں۔ ان کے کچھ افسانوں کا پس منظر بین الاقوامی بھی ہے۔
افضل توصیف پنجابی افسانے لکھنے کے متعلق کہتی ہیں: ’’سب سے پہلے اردو کہانیاں لکھیں جو ’’فنون‘‘ میں چھپیں۔ پنجابی رجحان کی وجہ سے پنجابی کا شوق ہوا اور لکھنا شروع کیا۔ پہلی کہانی پنجابی سنگت میں پڑھی۔ ’’مڑ اپنی روہی ول‘‘ تھی۔
افضل توصیف کی 1976ء سے 2000ء تک کی کتابیں یہ ہیں: اندھیروں کا سفر، درد کی دہلیز، زمین پہ لوٹ آنے کا دن، ہاری رپورٹ سے آخری فیصلے تک، غلام نہ ہو جائے مشرق، الیکشن، جمہوریت مارشل لاء، سوویت یونین کی آخری آواز، لیبیا سازش کیں، ٹالھی میرے بچڑے ہتھ نہ لا کسنبھڑے، شہر کے آنسو، یہ غلام جمہوریت ہے، کڑوا سچ پنجیوں گھنٹہ، من دیاں وستیاں اور روز نامہ پاکستان میں 400 سے زیادہ کالم لکھے۔
امرتاپریتم، ’’پنجیواں گھنٹا‘‘ کے پمفلٹ پر افضل توصیف کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں: ’’بہت سال ہوئے مجھے ایک خط آیا تھا، خط لکھنے والی نے اپنا نام نہیں لکھا۔ خط کے آخر میں صرف یہ لکھا تھا: ’’تینوں واج مارن والی، اِک دھی پنجاب دی‘‘، ’’اس وقت‘‘، ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ چھپ رہی تھی اور وہ خط اس میں درج کر دیا تھا۔ پر دل کرتا تھا کہ وہ خط لکھنے والی ملے، تو میں روکے اسے گلے لگا لوں۔ تو بعد میں پتا لگا کہ یہ خط لکھنے والی افضل توصیف ہے۔ پھر اس کی کتابیں بھی پڑھیں۔ ’’ناگمنی‘‘ میں اس کی کہانیاں بھی چھپیں اور سبب بنا کہ 1997ء کے شروع میں اسے دیکھا بھی، رج کے۔ وہ میرے پاس تین دن رہی تھی اور میں کہہ سکتی ہوں کہ آج کسی کو بڑے صحیح معنوں میں پنجاب دی دھی کہنا ہو، تو وہ افضل توصیف ہے۔‘‘
ڈاکٹر انعام الحق جاوید ’’افضل توصیف‘‘ کے افسانوی مجموعوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’محترمہ افضل توصیف کی کتابوں ’’ٹاہلی میرے بچڑے‘‘ اور ’’پنجیواں گھنٹا‘‘ میں پیش کیے گئے افسانے ترقی پسندانہ سوچ کے تحت لکھے گئے ہیں، جن میں مزدوری کرنے والی غریب اور محنت کش خواتین کے مسائل کو درد مندانہ اور حقیقت پسندانہ انداز سے اجاگر کیا گیا ہے۔‘‘
کہکشاں ملک کا افسانوی مجموعہ ’’چڑیاں دی موت‘‘ ادب سرائے راولپنڈی نے دسمبر 1981ء میں چھاپا۔ جس میں سولہ افسانے شیشے دی کندھ، چڑیاں دی موت، نویں نسل دا طربیہ، فرائیڈ دی اکھ، لیکاں، باجی، وڈے لوک، ڈیکوریشن پیس، نودا پینڈا، حمیداں بدمعاشنی، جینریشن گیپ، سنگل، تیلاتے بھنور، میں تے میں، غلام یاسین دی کہانی اور تیراں تالن شامل ہیں۔ یہ مجموعہ 184 صفحات پر مشتمل ہے۔
ناہید اختر کے افسانوی مجموعے ’’اڈیک‘‘ میں چھے افسانے اڈیک، ریت، بھل، کچ دے کھڈونے، لاٹ اور قربانی موجود ہیں۔ یہ مجموعہ 111 صفحوں کا ہے، جسے الحمرا آرٹ پرنٹرز، لاہور نے 1983ء میں شائع کیا۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کردیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔