برصغیر پاک و ہند میں اسلام پھیلانے کا سہرا صوفیائے کرام کے سر ہے۔ سیدنا علی ہجویریؒ، خواجہ معین الدین چشتیؒ، خواجہ نظام الدین اولیاؒ، بابا فرید الدین گنج شکرؒ، سلطان العارفین سلطان باہوؒ، سیدنا عثمان مروندیؒ اور شاہ رکن عالمؒ وغیرہم کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔ ان تمام کے دستِ حق پرست پر بلاشبہ لاکھوں لوگوں نے بیعت کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے حق دار ٹھہرے۔ آج اس خطے میں اسلام کی جو چہل پہل نظر آ رہی ہے، انہی خدا مستوں کی محنت کا ثمرہ ہے۔ سلاطین اسلام کی تلواروں نے علاقے فتح کیے جب کہ ان حضرات کے کردار و اخلاق نے دلوں کی زمین مسخر کی۔ صوفیائے کرام کے سلاسل اربعہ کے فاقہ کش زہاد نے اسلامی فصل کا ایسا بیج بویا جس کی کھیتی آج بھی ہری بھری ہے۔
سلاطین اسلام نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جگہ جگہ سرائیں اور منازل بنوائیں، حضرات صوفیائے کرام نے خانقاہیں آباد کیں۔ یہ خانقاہیں صحیح معنوں میں ’’انسان‘‘ تیار کرتی تھیں۔ دور دور سے لوگ آتے اور فیض یاب ہوتے۔ بعض لوگ کئی کئی دن قیام کرتے۔ ان آنے والوں میں فقرا اور درویشوں کے ساتھ ساتھ راجے، مہاراجے، وزرا اور نواب بھی ہوتے۔ حسبِ استطاعت ان کے نان نفقہ کا بند و بست کیا جاتا اور ہر قسم کی سہولت فراہم کی جاتی۔ شیخ و مرشد کے دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہتا۔ کہنے کو تو یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، لیکن قیام و طعام کے جو مقاصد نظر آتے تھے، آج ناپید ہیں۔ دورِ حاضر کی بڑی بڑی خانقاہیں بانجھ ہو چکی ہیں اور مزارات بے فیض نظر آتے ہیں۔ کوئی انفرادی طور پر ان سے کسبِ فیض کرتا ہو، تو ممکن ہے، لیکن اجتماعی طور پر مزارات، اسلامی احکام و دروس سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آج دنیا جہان کا نشہ، بے حیائی اور غیر شرعی امور انہی مزارات پر نظر آتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک مزار پر فاتحہ کی غرض سے جانا ہوا۔ دروازے پر پہنچے، تو جوتے اتروا لیے گئے۔ ہم نے بہتیرا کہا کہ ہم اپنے جوتوں کی حفاظت خود کر لیں گے، لیکن باہر بیٹھے مافیا نے زبردستی ہم تین دوستوں سے روپے اینٹھ لیے۔ اندر گئے، تو کئی عورتیں بے پردہ پھر رہی تھیں۔ حالاں کہ سیدہ امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’جب تک روضۂ اطہر میں رسولؐ اللہ اور میرے والد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دفن رہے، میں بے پردہ اندر جاتی رہی لیکن جب سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دفن ہوئے ہیں، میں حیا کی وجہ سے چادر میں لپٹ کر جانے لگی۔‘‘(مسند احمد)
کچھ لوگ سجدۂ تعظیمی کر رہے تھے۔ ہر کوئی دنیا مانگنے وہاں پہنچا ہوا تھا۔ مزار کی ایک خالی دیوار پر جگہ جگہ حاجات لکھی ہوئی تھیں۔ مثلا کوئی بیٹا مانگ رہا تھا، تو کوئی محبوب، کسی کو اپنے اچھے پیپر ہونے کی فکر تھی، تو کسی کو کاروبار بہتر ہونے کی۔ بعض اوٹ پٹانگ باتیں بھی درج تھیں۔ صاحبِ مزار کے حضور پیش ہوئے، تو وہاں بھی عجیب منظر تھا، جسے بیان کرنا بس سے باہر ہے۔ مخلوط محفلیں روحانیت بڑھانے کی بجائے اس کا گلا دبارہی تھیں۔ ایک جگہ قوالی ہو رہی تھی اور کوئی عورت کھلے بالوں سمیت رقص کر رہی تھی۔
اگر حکومت چاہے، تو یہ سارا دھندا بند کر سکتی ہے، لیکن شاید انہیں دوسرے کاموں سے فرصت نہیں یا پھر وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے۔ سال کے شروع میں محکمۂ اوقاف کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں مزارات کی آمدن شائع کی گئی۔ محکمۂ اوقاف کے زیر اہتمام پانچ ہزار کے قریب چھوٹے بڑے مزارات ہیں۔ بارہ کے قریب بڑے بڑے مزارات ہیں جن کی آمدن بلامبالغہ اربوں روپے ہے۔ مثلا سید علی ہجویریؒ (المعروف داتا گنج بخشؒ) کے مزار کی سالانہ آمدنی تیس کروڑ بیاسی لاکھ بیس ہزار روپے ہے۔ حضرت مادھو لال حسین مزار کی آمدن بیالیس لاکھ روپے، دربار حضرت شاہ جمالؒ کی چوالیس لاکھ، حضرت سید میاں میرؒ کی آمدن چوالیس لاکھ، سید فریدالدین گنج شکرؒ کی سات کروڑ، امام علی الحق کی پانچ کروڑ، دربار شاہ دولہ کی آمدن ساڑھے چھ کروڑروپے کے قریب ہے۔ یہ تو چندے کی کمائی ہے، ذاتی جاگیروں کی کمائی اس کے علاوہ ہے۔ مثلاً دکانیں، زمینیں، پلاٹ اور پراپرٹی وغیرہ۔
سوچنے کی بات ہے کہ اتنی کمائی کہاں جاتی ہے؟ سال میں کتنے غیرمسلموں کو ا س کمائی کے ذریعے دعوتِ اسلام دی جاتی ہے؟ کتنے نادار لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو اس کمائی کے بل بوتے پر اللہ اللہ سیکھ کر جاتے ہیں؟ کتنے حفاظ اور علما ان مزارات کی زیرنگرانی تیار ہو رہے ہیں؟ کتنی مرتبہ مکالمہ بین المذاہب ہوتا ہے؟ کتنی بیواؤں اور یتیموں کی داد رسی ہوتی ہے؟
میرے خیال میں سب سے زیادہ ان نادار، بے کس اور مجبور لوگوں کی کمائی کو شیرمادر سمجھ کر ہڑپ کیا جاتا ہے؟ اگر یہ ساری کمائی دین اسلام کی خدمت میں لگ رہی ہے( جیسا کہ اولیاء اللہ کا شیوہ تھا) تو وہ نظر کیوں نہیں آتی؟ ملک میں کرپشن اور بے ایمانی کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟ گدی نشینوں کی جاگیروں میں دن بدن اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ ان کے گیراجوں میں نئے نئے ماڈلز کی گاڑیاں کہاں سے آ رہی ہیں؟ ان کے بچے مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کرتے نظر آتے ہیں جب کہ انہیں نذرانے دینے والے مریدوں کے بچے تعلیم سے یکسر محروم کیوں ہیں؟ درباروں پر قبضہ مافیا کا احتساب کب ہوگا؟ نیب کب انہیں بھی پوچھ تاچھ کے لیے اپنے دفتر بلائے گا؟ ان کے خلاف سوموٹو ایکشن کس صدی میں لیا جائے گا؟
کاش! یہ چندہ اللے تللوں کی بجائے فلاح و بہبود اور تبلیغِ دین کے لیے خرچ ہوتا۔
کاش! غربا و مساکین اس سے مستفید ہوتے اور لوگوں کے دلوں کی بنجر زمین زرخیز کرنے کے کام آتا، تو آج ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔
قارئین، ابھی بھی وقت ہے، کوئی سمجھے تو!
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔