بیس جولائی سنہ انیس سو اٹھانوے کو میں نے آئین خان کی وفات پر جو کچھ لکھا تھا، وہ آج میں ایک بار پھر شریک کرنے جا رہا ہوں:
"مجھے علم نہیں تھا، نہ کبھی یہ احساس ہوا تھا کہ میں جسمانی اور ذہنی طور پر غائب بھی رہتا ہوں۔ اس کا تو مجھے آج پتا چلا جب سوات کی معروف سیاسی و سماجی شخصیت عبدالودود عرف ’’آئین خان‘‘ سولہ جون 1998ء کو سڑک کے ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ لاؤڈ اسپیکر سے بازاروں میں ان کی ناگہانی موت اور نمازِ جنازہ کے لیے اعلانات بھی ہوئے تھے، لیکن میں…… دوستوں نے بتایا نہ کسی سے سنا، میں موجود ہوتے ہوئے بھی کہیں دور ہی رہا اور آئین خان سوات اور اہلِ سوات کو داغ مفارقت دے کر ابدی نیند سوگئے۔”
قارئین کرام! اُس وقت آئین خان کی وفات پر میرے یہ احساسات تھے جس کا اعادہ میں نے مناسب سمجھا۔ آئین خان فضا گٹ مینگورہ کے رہنے والے تھے۔ صحت افزا مقام بحرین میں ’’آئین‘‘ نامی گاؤں سے مینگورہ آئے ہوئے تھے، جس کی وجہ سے وہ ’’آئین خان‘‘ کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ سرِشام فضاگٹ پارک میں سڑک کنارے پکوڑے بیچتے تھے۔ ساتھ ہی اُن کا گھر بھی واقع تھا۔ ایک پرانی سائیکل پر ہمیشہ سواری کیا کرتے تھے۔ جہاں بھی جاتے تھے، سائیکل سے فاصلے مٹاتے تھے۔ ہمیشہ سفید لباس میں ملبوس ہوتے تھے۔ سر پر قراقلی ٹوپی پہنتے تھے۔ گورا چٹا رنگ، ہنس مکھ چہرہ، علیک سلک میں پہل کرتے تھے۔ چھوٹے اور بڑوں میں یکساں طور پر مقبول تھے۔
جب بھی عام انتخابات منعقد ہوتے تھے، آئین خان قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے امیدوار ہوتے تھے۔ انتخابی مہم ان کے لیے عوام چلاتے تھے۔ انتخابی موسم میں سرِشام من چلے، لڑکے بالے جلوس کی شکل میں اُن کے گھر جاتے تھے۔ آئین خان کو جیپ میں سوار کرکے ’’آئین خان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا لگا کر جگہ جگہ رات گئے تک جلسے منعقد کرتے تھے۔ ان کے انتخابی جلسے اور جلوسوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی تھی۔ ان کے انتخابی حریف جو بڑی بڑی شخصیات ہوا کرتے تھے۔ وہ ان کے انتخابی مہم کودیکھ کر حیران ہوا کرتے تھے کہ کہیں ’’آئین خان‘‘ ہمیں شکست سے دوچار نہ کردیں۔ بین الاقوامی میڈیا (بی بی سی) میں ان کے انتخابی جلسوں اور جلوسوں کا ذکر ہوتا تھا۔ مقامی اخباروں میں ان کے جلسوں کی تصاویر چھپا کرتی تھیں۔ وہ جب بھی تقریر کرتے تھے۔ اپنی جیت کے ساتھ ساتھ اپنے مدِمقابل کی بھی ’’جیتنے‘‘ کی دعائیں کرتے تھے۔ ان کی انتخابی تقریر مزاح سے بھر پور ہوا کرتی تھی۔ یہ اپنے انتخابی حلقے میں بلند بانگ دعوے کرنے کے لیے مشہور تھے۔ جلسے میں عوام کی جانب سے پانی کی کمی کی شکایت آتی، تو یہ اپنی تقریر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی بات کرتے۔ ایسے موقعوں پر من چلے ’’آئین خان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے۔
جلسوں میں عوام کے جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے مخالف اُمیدواران ڈرتے تھے کہ کہیں آئین خان جیت نہ جائیں، لیکن آئین خان کے ہاتھ میں جیت کی ریکھا تھی ہی نہیں۔ چوں کہ آئین خان ایک محنت کش اور غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے مال دار اُمیدوار کامیاب ہوجاتے تھے۔
ہاں، آئین خان کے انتخابات میں بہ یک وقت قومی اور صوبائی سیٹ پر لڑنا اس بات کی دلیل تھی کہ مخالف امیدوار خواہ کوئی بھی ہو، ایک عام محنت کش اور غریب کو بھی انتخابات میں حصہ لینا چاہیے۔ اگر پارٹی ٹکٹ ہولڈر بھی نہ ہو، تو آزاد حیثیت سے حصہ لینا چاہیے، کیوں کہ یہی تو جمہوریت کا حسن ہے۔
اللہ بخشے، آئین خان بڑے حوصلہ مندانسان تھے۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔