چھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ کافر لگی ہوئی

  مرزا غالبؔ کے ایک غیر مطبوعہ شعر کا یہ آخری مصرعہ جسے ہم نے کالم کا عنوان بنایا ایک اور چیز کے لیے کہا گیا ہے، لیکن ہم اسے اپنے بعض ہم نشینوں اور حاضرینِ مجلس پر منطبق کرتے ہیں جو عادی سموکر (تمباکونوش) ہیں۔ بارہا ہم نے سموکر حضرات سے تمباکونوشی کی قباحتوں اور نقصانات گنوا کر اسے ترک کرنے کا مشورہ دیا ہے، لیکن بیشتر معذرت خواہانہ لہجہ میں کہتے ہیں کہ یہ ہماری کمزوری ہے۔ تمباکو پینے کے علاوہ منھ میں بھی رکھ کر چبایا جاتا ہے، جیسے نسوار، پان، چھالیہ اور گٹکا وغیرہ۔ اس سلسلے میں نسوار کے عادی افراد نے بھی کہا کہ بھئی! بہت مشکل ہے اس سے چھٹکارا پانا۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تمباکونوشی ہر پہلو سے مضرِ صحت ہے بلکہ ڈاکٹرز اور اطبا صاحبان کی رائے کے مطابق ’’تمباکونوشی‘‘ سے قوتِ ہاضمہ کمزور ہوتی ہے، بصارت متاثر ہوتی ہے اور خون میں سرخ ذرات گھٹتے ہیں جس کے نتیجے میں تمباکو نوش افراد ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہوجاتے ہیں۔
جب بالغ لوگ تمباکونوشی؍ تمباکو خوری کا شغل کرتے ہیں، تو چھوٹے بچے بھی انہیں دیکھ کر یہ عادتِ بد اختیار کرلیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچپن میں تمباکونوشی سے بچے کی جسمانی نشوونما رُک جاتی ہے اور وہ لاغر اور کمزور ہوکر رہ جاتا ہے۔
ہر سال 31 مئی کو تمباکونوشی کے نقصانات اور مضر اثرات سے آگاہ کیا جاتا ہے اور اہلِ دنیا کو ترکِ تمباکونوشی کی ترغیب دی جاتی ہے۔
ایک عالمی سروے کے مطابق دنیا میں سالانہ ساٹھ لاکھ افراد مہلک بیماریوں کا شکار ہوکر مر جاتے ہیں جب کہ تمباکو نوشی کے ماحول میں موجود افراد بھی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ہمارے اپنے مشاہدے کے مطابق سموکر اور نسوار کے عادی افراد اپنی عادتِ بد سے مجبور ہوکر ہر محفل، اجتماع، شادی بیاہ کی تقریب، جرگہ پنچایت یہاں تک کہ فاتحہ خوانی میں بھی اپنا شغل کرتے ہیں یعنی سگریٹ سلگا کر یا نسوار کھا کر مجلس کو ڈسٹرب کرتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم پیسے خرچ کرکے بیماریاں خریدتے ہیں۔ ایک غریب اور مقروض قوم کی حیثیت سے اربوں روپے پھونک دیتے ہیں اور قومی دولت کا وافر حصہ دوسروں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔

ایک عالمی سروے کے مطابق دنیا میں سالانہ ساٹھ لاکھ افراد مہلک بیماریوں کا شکار ہوکر مر جاتے ہیں جب کہ تمباکو نوشی کے ماحول میں موجود افراد بھی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ (Photo: Health Magazine)

میری رائے ہے کہ ’’انسدادِ تمباکونوشی‘‘ کے سلسلے میں سگریٹ اشتہارات پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک کے نصابوں میں تمباکونوشی کے مضر اثرات پر مبنی مضامین شامل ہوں۔ پبلک مقامات یعنی ہوٹلوں، پارکوں، ریلوے سٹیشنوں، بس اڈوں، ائیر پورٹس اور گنجان جگہوں پر سگریٹ نوشی اور نسوار خوری پر سخت پابندی ہو۔ عدم تعمیل کی صورت میں جرمانہ وصول ہونا چاہیے۔
اس کے علاوہ تمباکونوشی اور نسوار خور حضرات سے ہمارا مشورہ ہے کہ اگر ان عاداتِ بد سے نجات چاہتے ہیں، تو مضبوط قوتِ ارادی سے ان چیزوں کو خیر باد کہیں۔ اپنے آپ کو مصروف رکھیں۔ پانچ اوقات کی نماز کی پابندی کریں۔ مسواک استعمال کریں۔ ہر وقت باوضو رہیں اور ذکر کیا کریں۔ تمباکو نوشوں کی مجالس سے دور رہیں اور ذاتی جسمانی اور ماحولیاتی صفائی کا خیال رکھیں۔ تبلیغ میں وقت لگانے سے بھی یہ عادت چھوٹ سکتی ہیں۔
نسوار خوری، پان خوری، چھالیا اور گٹکا چھوڑنے کا اہم موقع ماہِ رمضان بھی ہے۔ ہمارے ایک دوست حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب گئے، تو ایامِ حج میں نسوار جیسی عادتِ بد کو چھوڑ دیا، جب کہ اس کے بقول اُس نے ساٹھ سال تک نسوار کی عادت اپنا ئے رکھی تھی۔
اچھی صحت اللہ تعالیٰ کا انمول عطیہ اور نعمت ہے۔ لہٰذا اس کی قدر کرنی چاہیے، تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کو بحیثیت پاکستانی قوم مشترکہ طور پر ہر حال میں تمباکونوشی اور تمباکو خوری کا راستہ روکنا ہے۔
مرزا غالب کے ایک غیر مطبوعہ شعر کا یہ آخری مصرعہ
ستونِ صحت پہ رکھتے چلو سمجھ کے چراغ
جہاں تلک بھی مرض کی سیاہ رات چلے

……………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔