ابھی تک یہ بات میری دانست میں نہیں بیٹھ سکی کہ ہمارے اجداد نے انسانوں کے مابین تفریق کا جو پیمانہ وضع کر رکھا ہے، وہ کیوں کر درست ہے؟ دوسرے لفظوں میں، مَیں یہ اس طرح کہوں گا کہ انسانوں کے مابین موجود نظری اختلافات کو بنیاد بنا کر کس طرح انسانوں کو فرقوں اور پارٹیوں میں بانٹا جا سکتا ہے؟ اگر یہی بنیاد صحیح ہے، تو پھر تاریخ کے ان واقعات کو کس خانے میں رکھاجائے؟ امیر تیمور ایک مسلمان تھا لیکن انھوں نے 1398ء میں ہندوستان کی مسلمان سلطنت پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ دونوں طرف مسلمان تھے، لیکن دونوں کی مسلمانی دونوں کو اکٹھا رکھنے میں ناکام رہی۔ اسی طرح دہلی پر نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی چڑھائی سے ہم سب واقف ہیں کہ انھوں نے کس طرح دہلی پر ہلّہ بول کے غارت گری مچائی تھی۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ہم اس سے پیچھے بھی جاسکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح مسلمان حکمران باہم دست بہ گریباں رہے ہیں۔ کربلا کا معرکہ، بنوامیہ اور بنو عباس کے مابین دھینگا مشتی اور بنو فاطمینِ مصر کی دوڑ دھوپ کے واقعات سے تاریخ کے اوراق سیاہ پڑے ہیں۔
دوسری طرف عیسائی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں، تو بھی ان ہی واقعات کی تکرار (Recurrence) نظر آتی ہے، یعنی ان کا نظری مسلک انھیں متحد رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ کانسٹنٹین (Constantine) نے اُس وقت 324ء آج کے مغربی ترکی میں بزنٹین (عیسائی) سلطنت کی بنیاد ڈالی، جو 1453ء میں ترک کے ہاتھوں شکست پذیر ہوئی۔ یہ ایک عیسائی سلطنت تھی لیکن اس سلطنت کے وجود میں آتے ہی عیسائی مذہب دو فرقوں میں بٹ گیا، رومن کیتھولک چرچ اور ایسٹر آرتھوڈوکس چرچ؛ یعنی بزنٹین ایمپائر نے سابقہ رومن ایمپائر کی مذہبی بالادستی کو ماننے سے انکار کر دیا اور یوں اپنے مذہب کو اپنی نہج پر چلانے لگے۔ بجائے اس کے کہ ان کے مذہب انھیں متحد رکھتا، اُلٹا مذہب اثر پذیر ہو کر تقسیم ہوگیا اور یہی وہ عیسائی سلطنت ہے کہ صلیبی جنگوں کے موقع پر جب اہلِ یورپ مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لیے آ رہے تھے، تو راستے میں انھوں نے اپنے ہی عیسائی بھائیوں کو بے دریغ تہِ تیغ کر ڈالا۔ اپنی ہی ہم مذہب عورتوں کی آبروریزی کی اور اپنے ہی ہم مذہبوں کی مال و متاع اور جائیداد و املاک پر قابض ہوگئے۔ یہی واقعات آج سے تقریباً بیالیس تریالیس سال پہلے بنگال میں ہمیں دیکھنے کو ملے، جہاں ہر قسم اعتقادی ہم آہنگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انسانیت کی خوب تذلیل کی گئی۔ انگلینڈ اور فرانس جو ہم مذہب ہیں، نے سو سال مسلسل جنگ لڑی ہے۔ ان جنگوں کا سلسلہ 1353ء سے 1453ء تک چلتا رہا۔ جنگ کی وجہ یہ تھی کہ انگلینڈ کا بادشاہ جو فرانس کا خونی رشتہ دار تھا، فرانس کا بادشاہ بننا چاہتا تھا۔ کیوں کہ اس وقت فرانس کا کوئی نرینہ جانشین نہیں تھا، اس لیے انگلینڈ اڈورڈ iii چوں کہ اس حالت میں سب سے قریبی رشتہ دار تھا، جانشین بننا چاہتا تھا۔ یہی ہوس وجۂ نزاع بن گئی اور ایک صدی جنگوں کا یہ خونی سلسلہ چلتا رہا۔ ان جنگوں میں حکمرانوں کے مفاد کے لیے عیسائی سپاہیوں کی تلواریں عیسائی سپاہیوں ہی کے سینوں میں اُترتی رہیں۔ (آج انگلینڈ اور فرانس کے درمیان جو عدوات موجود ہے، اس کی جڑیں تاریخ کی گہرائی میں پیوست ہیں)۔
برصغیر کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہندو ریاستیں ہم مذہب ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے برسرِ پیکار رہتی تھیں، جب کہ اندرونی نظری نظام میں انھوں نے انسانوں کو چار طبقوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ہندو مت کی فلاسفی چار بنیادی نکات کے گرد گھومتی ہے۔ سمسارا، کرما، مکشا اور دارما۔ ان چاروں میں دارما کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے فرائض انجام دیے جائیں اور اس میں کسی قسم کی غفلت نہ برتی جائے۔ جو حاکم ہیں، انھیں حکومت کرنی چاہیے اور جو محکوم ہیں، انھیں اپنی محکومیت میں خوش رہنا چاہیے۔ ہندو مت میں ذات پات کا یہ قصّہ بہت قدیم ہے۔ کیوں کہ اسے نظری اعتبار سے تحفظ فراہم تھا۔ پس، میری مراد یہ ہے کہ ایک طرف ہم مذہب ہندو راجہ ایک دوسرے کے خلاف جدل و آویزش میں لگے ہوئے تھے، تو دوسری طرف، ایک ہی مذہب کے پیروکار اپنے راجپوت آقاؤں کے ہم پلہ نہیں ہوسکے تھے، بالکل اسی طرح جس طرح کوئی خستہ حال مسلمان اپنے مسلمان سلطان کا ہم مرتبہ بھائی نہیں بن سکتا تھا۔
سلاطینِ دہلی کے حرم جنوبی ہند ہی کے محلات کی طرح کنیزوں اور داشتاؤں سے بھرے ہوئے ہوتے تھے، ان کنیزوں میں ہندو اور مسلمان کی تمیز نہیں رکھی جاتی تھی۔ "مالوے” کے ہندو راجہ کے حرم میں دو ہزار بیویاں تھیں جن میں مسلمان عورتیں بھی شامل تھیں۔ علاؤالدین خلجی کے پچاس ہزار غلام تھے۔ محمد تغلق کے غلاموں کی تعداد کی کثرت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ان کی باہمی شادیاں کرنے اور ان میں سے کچھ کو آزاد کرانے میں سلطان ہفتے میں ایک دن صرف کرتا تھا۔ فیروز کے زمانے میں غلاموں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ اس لیے تو ہندوستان کی روز افزوں مسلمان آبادی میں غلاموں نے معتد بہٖ اضافہ کیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے "ہندوستان عہدوسطی میں” از ڈاکٹرکنور محمد اشرف۔
اب پاکستان کی موجودہ صورتحال کی طرف آتے ہیں۔ متعدد پارٹیاں ایک دوسرے سے برسرِپیکار ہیں لیکن ہم یہ بھی اچانک سن لیتے ہیں کہ فلاں فلاں لوگ فلاں فلاں پارٹی میں شامل ہوگئے اور یہ شمولیت عین اس موقع پر کی جاتی ہے جب الیکشن کی آمد آمد ہوتی ہے یا پارٹیوں کے مابین الائینس ہو جاتی ہے۔ پچھلی حکومت میں متحدہ مجلس عمل اس کی بہترین مثال ہے کہ مذہبی نظری اختلافات ہونے کے باوجود وہ کون سی طاقت تھی کہ ان کو متحد کرنے میں کامیاب ہوگئی اور پھر وہ کون سی طاقت تھی کہ جس کے نہ رہنے پر ان کے نظری اختلافات پھر سے عود کر آئے؟ اگر اقتدار کے لیے ایکا کیا جاسکتا ہے، تو پھرسالوں اور عشروں تک اقتدار سے قبل اور بعد میں یہ اختلافات کن لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے روا رکھے جاتے ہیں؟
سوات اور پاکستان میں موجودہ کشاکش جن دو پارٹیوں کے مابین جاری ہے، اعتقادی طور پر دونوں ایک ہی اسلام کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں لیکن ان کے اعمال و افعال سے ظاہر ہو رہا ہے کہ دونوں میں بعد المشرقین ہیں، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی اعتقادات کی تقلید کے باوجود یہ سب لوگ متحد کیوں نہیں ہو پا رہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ درحقیقت انسانوں کی تقسیم کا جو پیمانہ ہے، غلطی سے تجویز کر دیا گیا ہے اور یوں اس پر دوبارہ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
میں تو اس بات پر بھی مشوش ہوں کہ ہمارے لیڈر ہمارے صحیح نمائندے ہیں بھی کہ نہیں؟ کیا وہ لوگ ہم میں سے ہیں جن کی کالی شیشوں والی گاڑی سے تین گاڑیاں آگے بھاگتی ہیں اور تین پیچھے، اور جو چیک پوسٹوں پر لائنوں میں کھڑے ہوئے بغیر زقندیں بھرتے ہوئے گزر جاتی ہیں۔ اگر چہ ہم سب ایک جیسے مسلمان ہیں، لیکن پھر بھی ہمارے درمیان جو تفریق ہے، وہ اَن مٹ ہے اور اعتقادی مماثلت کے ہوتے ہوئے بھی ہم ایک دوسرے سے بہت دوری محسوس کرتے ہیں۔ میں ایسے شخص کو کیسے اپنا لیڈر مان لوں کہ وہ مجھے جامہ تلاشی کی قطار میں چھوڑ کر خود امارت پسندانہ دھت میں مست گزر جائے۔ کسی ہم عقیدہ سوسائٹی کے اندر بھی اتنی خلیجیں ہوتی ہیں جتنی کہ کسی مختلف العقیدہ سوسائٹی میں۔ ظاہری بات ہے کہ زرداری اگرچہ مسلمان ہے لیکن کسی غریب مسلمان کا دوست نہیں بن سکتا، وہ کسی امیر ہی کا دوست ہوگا، امیروں کے مراسم امیروں ہی سے ہوتے ہیں۔ معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام کے انگلینڈکے ٹونی بلیر کے ساتھ اتنے گہرے مراسم تھے کہ ٹونی بلیر اسے پنا ذاتی دوست کہہ کر پکارتے تھے۔ امیروں اور حکمرانوں کا اپنا ایک مذہب ہوتا ہے اور غریبوں کا اپنا، بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ امیروں کا کوئی مذہب ہی نہیں ہوتا، ان کا مذہب بس جہاں گیری، جہاں داری اور جاہ و حشم کے حصول کا کوئی بھی طریقہ ہوتا ہے، خواہ ان طریقوں میں بذاتِ خود مذہب ہی کیوں نہ آتا ہو جس طرح مذکورہ بالاواقعات سے مترشح ہوتا ہے۔
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔