گاؤں سپل بانڈئی، سوات کے دارلخلافہ سیدو شریف سے محض آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ سیاحتی مقام مرغزار جاتے ہوئے راستے میں دائیں طرف سرسبز و شاداب پہاڑی کے اوپر یہ گاؤں واقع ہے۔ یہ پاکستان کا وہ واحد گاؤں ہے جہاں ایک ہی دادا کی اولاد رہتی ہے۔
سپل بانڈئی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سوات کے ان گنے چنے گاوؤں میں سے ایک ہے جو پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔ سطح سمندر سے گاؤں کی بلندی 3600 فٹ یا 1100 میٹر ہے۔

گاؤں کی سادہ زندگی کی ایک جھلک

سپل بانڈئیسے تعلق رکھنے والے شوکت شرار کی تحقیق کے مطابق گاؤں کے آثار قدیمہ بتاتے ہیں کہ یہاں محمود غزنوی کی افغان فوج کے آنے سے پہلے بدھ اور ہندو لوگوں کی آبادیاں تھیں۔ ’’سپل بانڈئی کا نام اور جغرافیائی خصوصیات بتاتی ہیں کہ یہ موجودہ گاؤں ان لوگوں نے آباد کیا جو محمود غزنوی کی افغان فوج کا حصہ تھے۔ گاؤں میں ابھی تک اس زمانے کا نظامِ آبپاشی موجود ہے۔‘‘
شوکت شرار کی تحقیق کے مطابق سوات کے وہ گاؤں جن کے ساتھ’’پور‘‘ کا لاحقہ لگتا ہے، ہندوؤں کے بسائے گئے علاقے ہیں۔ سوات میں اسلامپور، فتح پور اور شاہ پور اس کی مثالیں ہیں۔ اس طرح ’’گرام‘‘ کا لاحقہ ان علاقوں کے ساتھ لگتا ہے جنھیں بدھ لوگوں نے آباد کیا تھا یا انھیں ترقی دی تھی۔ ایسے علاقوں میں اوڈیگرام، نجیگرام اور گلی گرام وغیرہ نمایاں ہیں۔ لفظ ’’بانڈئی‘‘ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ مذکورہ لفظ ان علاقوں کے ساتھ مستعمل ہے جنھیں پختون زمانے میں ترقی دی گئی ہے۔اس تحقیق کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ سپل بانڈئی کو پختونوں نے ترقی دی تھی۔
گاؤں کے بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ سلطان محمود غزنوی کے ساتھ آنے والی فوج نے اس گاؤں کو آباد کیا تھا، لیکن یہاں پر بدھ مت اور اس کے بعد ہندوشاہی دور کے آثار بھی ملتے ہیں ، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس گاؤں کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔
سوات شرکتی کونسل کی سمیطہ احمد کی ترتیب دی ہوئی کتاب ’’لکڑی اور پتھر میں شاعری‘‘ میں شوکت شرار رقم کرتے ہیں کہ پندرہویں صدی میں سوات پر یوسف زئی پختونوں نے دست تصرف دراز کیا۔یوسف زئی قبیلے نے زمین کے بٹوارے کا ایک بے مثل طریقہ اپنایا۔ بٹوارے میں ان لوگوں کو بھی حصہ ملا جنھوں نے لشکر یا پیدل فوج میں حصہ لیا تھا۔ فوج میں شامل ایک شخص شیخ سعدی، جو ترک نسل سے تھا، اس کو بھی حصہ ملا۔اس کا پوتا اخوند درویزہ ایک بڑا عالم بنا۔ مقامی لوگوں نے اسے ولی کا درجہ دیا۔ بعد میں اخوند درویزہ کے پوتوں نے گاؤں کی زمین کو آپس میں بانٹ لیا۔ ان کے پوتے میاں دولت بابا کی اولاد نے سپل بانڈئی گاؤں کو آباد کیا۔ آج میاں دولت بابا کی اولاد سپل بانڈئی میں آباد ہے۔‘‘

ایک بچہ اپنے کھلونے کے ساتھ کھیل رہا ہے

اس تحقیق کی روشنی میں اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ سپل بانڈئی پاکستان کا وہ واحد گاؤں ہے جہاں ایک ہی دادا کی اولاد رہتی ہے۔ گاؤں کے ایک بزرگ’’امیر مشال‘‘ گاؤں کے شجرۂ نسب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’گاؤں سپل بانڈیٔ میں تین خاندانوں پر مشتمل لوگ رہتے ہیں۔ پورا گاؤں ’’اخوند درویزہ باباؒ‘‘ کی اولاد ہے۔ تینوں خاندان ’’برٹل میاں گان‘‘، ’’کوزہ خونہ میاں گان‘‘ اور ’’بنڑ میاں گان‘‘ کے ناموں سے مشہور ہیں۔‘‘
سوات کے دیگر گاوؤں یا علاقوں میں ایک ایک محلے میں دو دو، تین تین مساجد ہوتی ہیں۔ بالفاظ دیگر ہر قبیلے یا خیل کی اپنی ایک الگ مسجد ہوتی ہے۔ اس حوالے سے سپل بانڈئی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پورے پاکستان میں یہ واحد گاؤں ہے جہاں سات ہزار کی آبادی ایک ہی مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتی ہے۔ یہ بات ایک طرح سے اہل سپل بانڈئی کی یکسانیت اور مذہبی اعتدال کی بھی غماز ہے۔

گاؤں کی تین ساڑھے تین سو سالہ پرانی مسجد کا ایک منظر

مسجد کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تین سو سال پرانی ہے۔ یہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ تین ساڑھے تین سو سال پرانا جبکہ دوسرا عصر حاضر کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ مسجد ایک طرح سے قدیم و جدید دور کا حسین امتزاج ہے جسے ملک کے طول و عرض سے سیاح دیکھنے آتے ہیں۔ مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی پر مخصوص سواتی کاریگری کا جائزہ لیا جاسکتا ہے جو مرور ایام کے ساتھمعدومیت کا شکار ہوچکی ہے۔ اب سواتی کاریگر ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔

مسجد کا دوسرا منظر

مسجد کا دوسرا منظر

گاؤں کے ایک سفید ریش عزیز خان کے بقول:’’ مسجد کی کئی خوبیاں ہیں۔یہ عین گاؤں کے وسط میں واقع ہے اور صاف اور میٹھے پانی کا گزر بھی ایک نالے کی شکل میں اسی مسجد سے ہوتا ہے۔چوں کہ پورے گاؤں کی یہ واحد مسجد ہے، اس لیے پچھلے تین سو پندرہ سالوں سے اس گاؤں کے اتفاق و اتحاد اور یگانگت پر آج تک آنچ بھی نہیں آئی ہے۔‘‘
ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر محمد دوران مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’مسجد کی تزئین و آرائش میں استعمال ہونے والی لکڑی زیادہ تر ’’دیار‘‘ کی ہے۔ مسجد کے محراب میں تین قسم کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ استعمال شدہ کالے رنگ کی لکڑی کوعرف عام میں ’’بنڑیا‘‘ کہتے ہیں، جو کہ اس علاقہ کی لکڑی نہیں ہے اور یہ خاص طور پر موضع ملم جبہ سے منگوائی گئی ہے۔ اس میں دوسری قسم ’’دیار‘‘ کی لکڑی ہے۔ تیسری قسم اس میں ’’چیڑھ‘‘ کی لکڑی استعمال ہوئی ہے، جسے سوات کی سب سے بہترین لکڑی ہونے کا اعزازحاصل ہے۔ تقریباً تین سو پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی اس مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی موجودہ دور میں استعمال ہونے والی دیگر لکڑیوں سے بدرجہا بہتر اور مضبوط ہے۔ یہاں کی روایات کے مطابق مسجد کی تعمیر میں لکڑی کا استعمال زیادہ کیا گیا ہے۔ یہاں روائتی طرز تعمیر میں لکڑی، پتھر اور گارے کا ہی زیادہ تر استعمال ہوتا ہے اور یہی کچھ ہماری روایات ہیں۔‘‘

مسجد کے اندر لگے ایک دروازے پر دل آویز نقش و نگار

سپل بانڈئی کے بیشتر لوگ سرکاری نوکر ہیں جن میں ایک بڑی تعداد پولیس میں بھرتی ہے۔ اس کے علاوہ اندرون ملک و بیرونی ممالک میں کام کرنے والے رقوم بھیجتے رہتے ہیں جس سے گاؤں کے لوگ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ آمدنی کے بیشتر ذرائع میں زراعت و باغبانی بھی شامل ہیں۔ یہاں کی زمین انتہائی زرخیز ہے۔ گندم اور مکئی جیسی نقد آور فصلوں کے علاوہ یہاں سبزیوں میں آلو، پیاز، گوبھی، مٹر،گاجر، مولی، شلجم وغیرہ پیداہوتے ہیں۔ پھلوں میں سیب، آلوچہ، خوبانی، شفتالو، انجیر وغیرہ بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں کا اَخروٹ خاص طور پر مشہور ہے جس کا چھلکا اتنا نرم ہوتا ہے کہ اسے انگلیوں میں دبا کر ہلکا زور دینے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ چونکہ گاؤں سرسبز و شاداب ہے، اس لئے یہ مگس بانی کے لئے بے حد موزوں ہے۔ اک آدھ جگہ اس حوالے سے تجربہ کیا بھی گیا ہے۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو مگس بانی بھی گاؤں والوں کے لئے ایک بہترین ذریعہ آمدن ثابت ہوسکتی ہے۔

گاؤں میں تعلیم کی شرح ملک کے باقی ماندہ حصوں سے زیادہ ہے۔ سپل بانڈئی کے رہائشی امجد علی (سکول ٹیچر) کے بقول ’’گاؤں میں تعلیم کی شرح اسّی فی صد سے زیادہ ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں عموماً لڑکوں کی تعلیم پر زیادہ زور دیا جاتا ہے مگر سپل بانڈئی اس حوالے سے جداگانہ حیثیت کا حامل گاؤں ہے جہاں لڑکوں کے لئے مڈل اور لڑکیوں کے لئے ہائی اسکول قائم ہے۔ اس کے علاوہ دو پرائمری اسکول اور ایک نجی اسکول (انگلش میڈیم) بھی نونہالان وطن کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے قائم ہے۔‘‘
گاؤں میں کام کے بندوں کی کمی نہیں ہے۔ یہاں کے ایک رہائشی جہان پرویز نے بائیو گیس پلانٹ کا ایک کامیاب تجربہ کیا ہوا ہے۔ ان کے بقول ’’پشاور انجینئرنگ یونیورسٹی کے تعاون سے ہم نے بائیو گیس پلانٹ لگایا ہے۔ مویشیوں کے فضلے سے اب گیس کی پیدوارا کا کام جاری ہے جس سے گھر میں کھانا پکانے اور کمروں کو گرم رکھنے کا کام لیا جاسکتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی گیس کسی بھی آٹھ دس افراد پر مشتمل خاندان کی زندگی سہل بناسکتی ہے۔ اس سے نہ صرف چھوٹے بڑے سلنڈر بھرے جاسکتے ہیں بلکہ اسے گاڑی کے ایندھن کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔‘‘
اتنی خوبیوں کے ساتھ اس گاؤں کو ایک بڑا خطرہ یہ لاحق ہے کہ آج کل اس کے اندربے ہنگم تعمیرات زور و شور سے جاری ہیں، جو اس گاؤں کے فطری حسن کو ختم کرنے کے لئے کافی ہیں۔ یہاں کی زرخیز زمین تیزی کے ساتھ پختہ عمارتوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اس حوالہ سے گاؤں کے بڑوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اس مسئلے کا حل نکالنا چاہئے۔