کئی چیزیں اگر حدود میں رہیں، تو فائدہ مند ہوتی ہیں اور اگر حدود سے تجاوز کر جائیں، تو نقصان دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر پانی ہی کو لیجیے۔ پانی اگر کہیں نہ ملے، تو نقصان دہ ہے اور اگر اتنا ہو کہ بند توڑ کر شہروں میں آجائے، تو وہ بھی نقصان دہ ہے۔ بالکل اسی طرح اگر شہوت انسان کے اندر بالکل ہی نہ ہو، تو بھی نقصان دہ ہے اور اگر یہ اتنی بڑھ جائے کہ اس کو حلال و حرام کی تمیز ہی نہ رہے، تو یہ بھی نقصان دہ ہے۔ یہی معاملہ غضب (غصہ) کا ہے۔ اگر کسی بندے کے اندر غصہ بالکل ہوہی نہ تو وہ بڑا دیوث اور بے غیرت بن جاتا ہے۔ اس کے سامنے اس کی عزت خراب کی جائے یا اس کے سامنے دین کا مذاق اُڑایا جائے، تو اسے کوئی احساس ہی نہیں ہوتا۔ حضورؐ کا ارشادِ مبارک ہے، جس میں غیرت نہ ہو، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ دوسری جگہ ارشاد ہے میں بنی آدم میں سب سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیور ہے۔
اس طرح اگر یہ غصہ ضرورت سے زیادہ بڑھ جائے، تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ بھڑکنا شروع کر دے گا۔ اس لیے اس کا ایک حد سے زیادہ بڑھ جانا بھی نقصان دہ ہے۔
قارئین کرام! آج کا عنوان غضب یعنی غصہ ہے۔ اکثر لوگ یہی کہتے ہیں کہ جی دماغ بہت گرم رہتا ہے۔ مجھے غصہ جلدی آتا ہے اور میں اپنے قابو میں نہیں رہتا۔ کیا بچہ، کیا بڑا، کیا مرد، کیا عورت سب کی یہی حالت ہے۔ حدیث میں آتا ہے، غصہ ایمان کو ایسے خراب کرتا ہے جیسے شہد کو سرکہ خراب کردیتا ہے۔
ایک اور روایت میں ارشاد فرمایا گیا، طاقت کے باوجود غصے کو پی جانے والا انسان قیامت کے دن اللہ رب العزت کی رضا کو حاصل کرنے والا ہوگا۔ یعنی اس کے اندر بدلہ لینے کی طاقت بھی ہے اور غصہ نکال بھی سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود غصہ نہیں نکالتا اور برداشت کرجاتا ہے، تو اللہ رب العزت اس بندے کو قیامت کے دن اپنی رضا اور خوشنودی کا پروانہ عطا فرمادیں گے۔
ایک حدیث میں آیا ہے، اکثر لوگوں کے دوزخ میں جانے کا سبب ان کا غصہ ہوگا۔
غصہ کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، مگر اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔ مثلاً غصہ کی وجہ سے دوسرے کی دل آزاری ہوتی ہے اور کسی کو دُکھ پہنچانے سے بڑا کوئی اور گناہ ہے ہی نہیں۔ کئی مرتبہ تو ایسا ہوتا ہے کہ غصے میں طلاق دے دیتے ہیں اور جب تھوڑی دیر کے بعد دماغ ٹھنڈا ہوجاتا ہے، تو بیوی کو کہہ دیتے ہیں کہ کسی کو نہ بتانا۔ اس کے بعد میاں اور بیوی دونوں بغیر نکاح کے اسی طرح باقی زندگی گزار دیتے ہیں اور اولاد بھی رہی ہوتی ہے۔
اس طرح ایک مرتبہ نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ پہلوان کون ہے؟ عرض کیا، اے اللہ کے نبیؐ جو دوسروں کو گرادے وہ پہلوان ہے۔ فرمایا، نہیں۔ پہلوان وہ ہے جو اپنے غصے پر قابو پالے۔
قارئین، یاد رکھئے کہ غصہ پر قابو پالینا مردانگی اور ہمت کی بات ہوتی ہے۔ آج یہ ہمت ختم ہوگئی ہے۔ چناں چہ چھوٹی چھوٹی باتیں غصے پر قابو نہ ہونے کی وجہ سے بتنگڑ بن جاتی ہیں۔ اچھا انسان وہ ہے جس کو غصہ دیر سے آئے، لیکن وہ جلدی راضی ہوجائے اور برا انسان وہ ہے جسے غصہ جلدی آئے اور بڑی دیر کے ساتھ جائے۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ اگر کسی وجہ سے غصہ آئے بھی، تو اگر دوسرا فریق معافی مانگ لے، تو دل سے فوراً ناراضگی دور کردینی چاہیے۔
غصے کی وجہ سے انسان کے اندر انتقام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، جب کہ شریعت ہمیں یہ کہتی ہے کہ ہم دوسروں سے انتقام لینے کی بجائے ان کو معاف کردیا کریں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل لوگ کہتے ہیں کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ یہی جذبۂ انتقام انسان کو برباد کر دیتا ہے۔
نبی کریمؐ نے کبھی بھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ حتیٰ کہ جب مکہ فتح ہوا اور اللہ کے نبیؐ فاتح بن کر مکہ مکرمہ جارہے تھے، تو اس وقت آپؐ اپنی سواری کے بالوں کو پکڑ کر یہ فرما رہے تھے، سب تعریفیں اس ایک اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے تمام دشمنوں کی جماعتوں کو شکست عطا فرمادی۔
اس وقت نبی کریمؐ بھی مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے، تو ایک صحابی سعد بن عبادہ ؓ کہنے لگے، آج کا دن جنگ کا دن ہے، تو حضورؐ نے سعد بن عبادہؓ سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے کو دے دیا اور فرمایا، آج کا دن رحمت کا دن ہے۔
اگلے دن آپؐ نے عام معافی کا اعلان فرمادیا۔
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔