ڈاکٹر اَسرار: اسلام، حاکمیت الٰہی اور جمہوریت

Blogger Doctor Gohar Ali

اسلام اور جمہوریت کے تعلق پر مولانا اَسرار احمد کا موقف یہ ہے کہ اسلام انسانی حاکمیت کی نفی کرتا ہے اور خلافت کو اس کا متبادل پیش کرتا ہے۔ اُن کے مطابق، انسان دنیا میں اللہ کا نائب بن کر آیا ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: ’’مَیں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘ (البقرہ: 30)
وہ انسانی حاکمیت کو شرک کی ایک بڑی شکل قرار دیتے ہیں، جو تعویذ گنڈے اور قبر پرستی سے زیادہ خطرناک ہے۔
٭ اللہ کی حاکمیت اور انسانی خلافت:۔ مولانا اَسرار احمد قرآن کی آیت ’’حاکمیت صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے۔‘‘ (یوسف: 40) کے ذریعے یہ واضح کرتے ہیں کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے۔
مولانا کے مطابق، اللہ کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ قانون سازی کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے، اور ہر معاملے میں آخری فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے۔ خلافت، اُن کے نزدیک، اللہ کی حاکمیت کے تحت ایک محدود نیابت ہے، جس کا مقصد اللہ کے احکام کو نافذ کرنا ہے۔
٭ انسانی سماج کا ارتقا:۔ انسانی سماج کے ارتقا کے بارے میں مولانا کہتے ہیں کہ ابتدا میں انسان قبیلوں میں رہتا تھا، جہاں ہر قبیلے کا سردار روایات کے مطابق فیصلے کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ یہ نظام شہنشاہیت میں تبدیل ہوا، جو کبھی اسلامی بادشاہت اور کبھی کافرانہ بادشاہت کی شکل اختیار کرگیا۔
اسلامی بادشاہ، مولانا کے مطابق، اللہ کے احکام کے تابع ہوتے تھے، جیسے حضرت داؤد علیہ السلام۔
اس کے برعکس، مولانا فرعون اور نمرود کو کافرانہ بادشاہت کی مثالیں قرار دیتے ہیں، جنھوں نے اپنی خود مختار حاکمیت کا دعوا کیا۔
فرعون کے بارے میں مولانا کہتے ہیں کہ وہ مصر کے وسائل پر مکمل اختیار کا دعوا کرتا تھا، جو کھلے کفر اور شرک کی علامت ہے۔
٭ نبوت اور خلافت:۔ مولانا اسرار احمد کے مطابق، نبوت کے زمانے میں نبی ہی خلیفہ ہوتے تھے، اور خلافت شخصی ہوتی تھی۔ نبی، اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کرتے تھے، اور جہاں اللہ کا حکم نہ ہوتا، وہاں اپنی عقل سے کام لیتے تھے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں مدینہ کی ریاست میں خلافت، اللہ کے بہ راہِ راست احکامات کے تحت تھی۔ آٹھ ہجری کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پورے عرب کے خلیفہ بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد خلافت اجتماعی ذمے داری میں تبدیل ہوگئی، جیسا کہ قرآن میں وعدہ کیا گیا: ’’اللہ نے اُن لوگوں سے وعدہ کیا ہے، جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ وہ اُنھیں زمین میں خلافت عطا کرے گا۔‘‘ (النور: 55)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد خلافت، مولانا اَسرار احمد کے نزدیک، اجتماعی ہوجاتی ہے اور جمہوری طریقے سے خلیفہ منتخب کیا جاسکتا ہے۔
لیکن ساتھ ہی مولانا یہ بھی کہتے ہیں کہ خلیفہ کو مطلق اختیارات حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے قانون سازی کرے۔ اُس پر لازم ہے کہ وہ اللہ اور اُس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق قانون سازی کرے۔
٭ جمہوریت اور جدید ریاستیں:۔ روشن خیالی کے بعد یورپ میں بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی، جہاں عوام کو قانون سازی کا اختیار دیا گیا۔ مولانا اَسرار احمد اس نظام پر تنقید کرتے ہوئے سورۂ حجرات کی آیت پیش کرتے ہیں: ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو۔‘‘ (الحجرات:)
مولانا اَسرار احمد کے مطابق، قانون سازی اللہ اور رسول کے دائرے سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔
مولانا مزید خبردار کرتے ہیں کہ اکثریت پر مبنی فیصلے گم راہی کا سبب بن سکتے ہیں، جیسا کہ قرآن میں کہا گیا: ’’اگر تم زمین میں زیادہ لوگوں کی پیروی کروگے، تو وہ تمھیں اللہ کے راستے سے گم راہ کر دیں گے۔‘‘ (الانعام: 116)
٭ جمہوریت کے دائرے میں رہتے ہوئے:۔ مولانا کے نزدیک، اگر قانون سازی قرآن و سنت کے دائرے میں ہو، تو جمہوریت قابلِ قبول ہے۔ اس دائرے کے اندر مباحات کے معاملات میں رائے شماری کے ذریعے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنا واضح طور پر کفر اور شرک کے زمرے میں آتا ہے۔
مولانا اَسرار احمد کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جمہوریت اُس وقت تک اسلامی اُصولوں کے مطابق ہوسکتی ہے، جب تک وہ اللہ کی حاکمیت کے تابع رہے اور قرآن و سنت کی حدود سے تجاوز نہ کرے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے