خالق کاینات نے انسان کو نوع نوع کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان نعمتوں میں ایک نعمت موسموں کا اُلٹ پھیر بھی ہے۔ انسان کی خوشی اور غم اس کے احساس کا نتیجہ ہیں۔ گرمی کی شدت میں چیخ اُٹھتا ہے، تو سردی کا آغاز ہوتے ہی سکون کا سانس لیتا ہے اور جب خزان میں اُداس ہوتا ہے، تو بہار کی آمد پر چہکتا ہے اور یہ ایک حقیقت بھی ہے۔ بہ قولِ مرزا ابراہیم ذوقؔ
گل ہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
انسان کی یہ فطرت ہے کہ اگر اسے کانٹے کی چبھن محسوس نہ ہو، تو پھول کا مزہ اور قدر و قیمت کس طرح محسوس کرسکتا ہے۔ یہی حال موسموں کا بھی ہے کہ اگر خزان کی افسردگی نہ ہو، تو بہار کے کیف و سرور سے بھی لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ وطن عزیز کو اللہ تعالیٰ نے چاروں موسموں سے بھر پور طور پر نوازا ہے اور ان چاروں موسموں کو خالق کاینات نے نہایت حکمت عملی سے ترتیب دیا ہے۔ ہم نے دیارِ غیر یعنی یوروپ، امریکہ، افریقہ اور عرب وغیرہ ممالک سے آئے ہوئے لوگوں سے سنا ہے کہ ان ممالک میں ہمارے ملک کی طرح ایسے ترتیب سے موسم نہیں ہوتے جس ترتیب سے قدرت نے ہمیں موسموں کا یہ تحفہ عطا کیا ہے۔ دیار غیر میں یا تو زیادہ گرمی ہوتی ہے یا زیادہ سردی اور موسم بہار بہت کم مدت کے لیے ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں ان چار موسموں میں موسم بہار عجیب پر کیف اور پر سرور ہوتا ہے۔ بہار سے پہلے ہر طرف اُداسی اور ویرانی ہوتی ہے۔ درختوں سے پتے جھڑ رہے ہوتے ہیں۔ ماحول کی سبزی زردی میں تبدیل ہوچکی ہوتی ہے۔ ہر شے خاموش اور ہر پھول اپنا چہرہ چھپایا ہوا ہوتا ہے اور ہر درخت بے سرو سامانی کے عالم میں خالق حقیقی کے سامنے ہاتھ پھیلائے شادابی مانگتا نظر آتا ہے۔ پرندے بھی خاموشی سے خالق ارض و سماء کی رحمت و برکت کے منتظر ہوتے ہیں اور پھر بہ قول مرزا غالبؔ
آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
اُڑتی سی اک خبر ہے زبانِ طیور کی
یعنی مایوسی کے اس عالم میں موسم پلٹا کھاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اُجڑے اشجار کے پھیلے ہوئے ہاتھوں کی دعائیں سنتا ہے اور ان کی برہنگی کو سبز لباس سے ڈھانپ لیتا ہے۔ شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں۔ حسن فطرت جاگ کر انگڑائی لیتا ہے اور کاینات کی افسردگی، شگفتگی میں بدل جاتی ہے۔ یہی بہار کا دل فریب موسم ہوتا ہے۔
مملکت خداداد میں بہار کا موسم اوایلِ مارچ سے اواخرِ اپریل تک رہتا ہے جب کہ ہمارے سوات میں خصوصاً اور باقی ماندہ ملاکنڈ ڈویژن میں عموماً مارچ میں بارشیں ہوتی ہیں۔ اس موسم کی بارشوں کو پشتو میں (دَ سپرلی بارانونہ) یعنی بہار کی بارشیں کہتے ہیں۔ اس موسم کی بارشوں کے بارے میں سکندر حیات کسکر کا ایک پشتو شعر ہے، کہتے ہیں۔
دَ سوات سپرلے خو بارانونو اوخوڑ
تالہ گلونہ د بل زایہ راوڑم
بہار آتے ہی ٹھنڈی ہوائیں معتدل ہوجاتی ہیں۔ باغوں کے علاوہ صحراؤں کی دنیا بھی گلوں سے رنگین ہوجاتی ہے۔ تتلیاں اور بھونرے رنگا رنگ پھولوں پر نثار ہوتے رہتے ہیں۔ رومانی فضا میں اہلِ دل اور اہلِ ذوق کے لیے کیف و سرور کا سامان پیدا ہوتا ہے۔ اس موسم کے سلسلہ میں شعراء اور اُدباء مختلف اشعار، غزلیں، نظمیں اور مضامین تحریر کرتے ہیں۔ ہم بھی بہار کی رعنائیوں سے متاثر ہوکر خامہ فرسائی کرنے پر مجبور ہوئے۔ کیوں کہ ہم بھی بابائے غزل امیر حمزہ خان شنواری کے مندرجہ ذیل شعر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
خکلے پسرلے او بیا سہ نہ وئیل
خکاری چہ اودے مے آرزوگانے دی
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔