صاف پانی کی قلت کی خبریں ملک کے مختلف علاقوں اور دوسرے ممالک سے آتی رہتی ہیں۔ برے دنوں کے لیے خوراک کے ذخیرے جمع کرنا حضرت یوسف علیہ السلام کی کہانی میں رب العالمین نے دنیا کو بتا دیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم لوگوں نے قرآن و احادیث کو قصے کہانیوں کی سطح پر رکھا ہوا ہے۔ عملی زندگی میں ہم نے ان دو عظیم ذرائع ہدایت کو تقریباً نظر انداز کیا ہوا ہے۔ آج بھی عام مسلمان سب سے زیادہ بات محراب و منبر کی مانتے ہیں اور یہ یقینا ایسے مقدس ذرائع ہیں جن سے دورِ جدید میں پُرامن اور خوشحال زندگی کم سے کم وقت میں حاصل کی جاسکتی ہے۔ بس بات تعلیم و تبلیغ کے معیار کی اور درست عمل کی ہے۔ اگر احتیاط کے ساتھ ارد گرد کے ماحول (پاکستان میں) پر نظر ڈالی جائے، تو قدرت کی طرف سے پانی کی فراہمی فی الحال اچھی خاصی ہے لیکن بے تربیت عوام، کرپٹ دفتری ماحول اور حد سے زیادہ خود سریوں نے دوسرے بے شمار مسائل کے ساتھ پانی کے مسائل کو بھی گھمبیر بنادیا ہے۔ سر فہرست ذمہ داروں میں وطنِ عزیز دفتری معیار کار ہے، پھر الراشی و المرتشی اور سفارش کا کلچر ہے۔ ہم نے اپنے معاملات کو اتنا بگاڑ دیا ہے کہ اب شاید بگاڑ ہی کے ذریعے اس کو درست کیا جاسکے گا۔ جیسا کہ روس اور چین میں کئی کروڑ لوگوں کو گولیوں سے اڑا کر کچھ درستگی لائی گئی۔ بادی النظر میں میرا یہ فقرہ بڑا سخت ہے لیکن جب ہم خود خرابیوں کو بڑھاتے ہیں، تو پھر ہمیں ہی اس کی ذمہ داری لینی چاہئے۔ ہم چھوٹے لوگ ہیں بڑے لوگوں کی باتیں سمجھ نہیں سکتے۔ کروڑوں روپے کا لاباغ ڈیم کی تعمیر کے ابتدائی امور پر خرچ کئے گئے۔ ماہرین نے (مع ورلڈ بنک) اس کو مفید اور قابلِ عمل قرار دیا، لیکن پھر معروف بائیں جماعت والی سوچ کی سیاسی پارٹیوں کے بڑوں نے اس سکیم کو ختم کروا دیا۔ ایک بڑا تو صدر پاکستان تھا، جس کی آئینی ذمہ داری پورے ملک کے مفادات کا خیال رکھنا تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ حسب سابق ہم عظیم مقدار کا پانی سمندر میں پھینک رہے ہیں۔
بہت بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری اور وسیع پیمانے کی سمگلنگ نے ملک سے سرمایہ کو باہر منتقل کرنے، سرکار کا ایک لاکھ کا کام کئی لاکھوں میں کروانا اور وہ بھی ناقص، ان عادات نے خزانے کو خالی کروادیا ہے۔ پھر دفاتر میں دو نمبر کی بیورو کریسی اور سفارشی اور اقربا پروری نے سرکار کی قوتوں کو کمزور ترین کردیا ہے۔ ورنہ پورے ملک میں جگہ جگہ چھوٹے اور بہت چھوٹے گڑھے نما ڈیمز کے ذریعے کافی پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔ پہاڑوں اور غیر آباد زمینوں پر درخت اور جھاڑ جھنکار اُگا کر ہم ماحول کی حدت کو کم کرکے اپنے پہاڑوں سے برف کی پگھلاہٹ کو آہستہ کرسکتے ہیں (پو دے اللہ کی مخلوق ہوتے ہیں، اُن کے لیے اللہ بارش بھیجتا ہے) اس طرح ہر پودے کے اندر کافی مقدار میں پانی ہوتا ہے، جو ماحول کی حدت کو کم کرکے پانی کے استعمال کو کم کروادیتا ہے۔
خود مجھے تو اس بات میں شک نہیں کہ چوری کئے گئے پانی سے وضو والی نماز درست نہ ہوگی، لیکن محراب و منبر کی خاموشی عجیب سی ہے۔ حرام کا ایک نوالہ اگر پیٹ میں ہو، تو کہتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوتی اور نماز تو دعا ہی ہے۔ اس طرح بغیر ادائیگی کے پانی کی پیٹ میں موجودگی کی بات ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے حق اور تصوف کی طرف مائل لوگ کھانے پینے کے حلال ہونے کی بہت زیادہ فکر کرتے ہیں۔ محراب و منبر پر لازم آتا ہے کہ وہ پانی کی چوری اور اس کے ضیاع پر عوام کو شریعت کے احکامات بتا دیں۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم یوں ہے کہ ہوا، پانی اور آگ (پرانے زمانے میں آگ پیدا کرنا بہت مشکل کام ہوتا تھا، اس لیے لوگ ایک دوسرے سے آگ مانگا کرتے تھے) تمام انسانوں کی مشترکہ ملکیت ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص بھی پانی چوری کرتا ہو، وہ تمام عوام کی مال کا چور ہوگیا اور روزِ قیامت بے شمار لوگ اُس کا گریبان پکڑے ہوئے ہوں گے۔ میرے ان الفاظ پر بہت سارے پڑھنے والے مسکراتے ہوں گے یا غصہ ہوں گے۔ خدا ہم سب کو ہرشیطانی عمل سے بچائے۔
فطرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے
مگر کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
مینگورہ سیدو شریف میں میونسپل عملہ بہت زیادہ نیک اور مغلوب ہے اور عوام بہت زیادہ طاقتور ہیں۔ جس کا جب اور جس جگہ سے دل چاہے وہ کمیٹی کی بڑی لائن ہو یا چھوٹی اُسے توڑ کر اُس سے اپنی مرضی کا کنکشن خود لے لیتا ہے۔ پھر یہ بھی ظلم کرتا ہے کہ اُس کو مسلسل بہنے دیتا ہے۔ بہت سارے مسلمان بجلی کی موٹروں کے ذریعے پانی کھینچتے ہیں اور عموماً ضائع کرتے ہیں۔ میونسپل حکام کی کمزوری اور شرافت کی تو یہ حالت ہے کہ اُن کے وجود ہی کا کسی کو علم نہیں۔ مینگورہ بازار میں بعض دکاندار پانی کا استعمال کرتے ہیں اور اُن کے کاروبار کا پانی عین سڑک کے وسط میں یا سائیڈوں پر بہتا ہے جس سے لاکھوں روپوں کی سڑک خراب ہوجاتی ہے۔ اگر ٹی ایم اے والے پہلے ایک جرگے کی شکل میں اُن دکانداروں کو سمجھا دیں کہ پانی کا رُخ درست کرو، تو شاید وہ لوگ جلدی ایسا کرلیں گے۔ ہمارے لوگ اللہ کے کرم سے عموماً اچھے ہیں، اچھی بات مانتے ہیں لیکن اُن کو سمجھانے والا کوئی نہی، نہ حکام اور نہ علما۔ اسی حقیقت کو نبی کریم ﷺ نے یوں واضح کیا ہے کہ وہ امت فلاح نہیں پاسکتی جس کے علما اور امرا گمراہ ہوں۔ مینگورہ میں جگہ جگہ بورنگ کے ذریعے زمین سے کثیر پانی کھینچا جارہا ہے۔ اب تو لوگوں نے بہت بڑی بڑی مشینیں استعمال کرنا شروع کی ہیں۔ ٹی ایم اے؍ ٹی ایم او کے پاس ان سب ’’بور والے کنوؤں‘‘ کا ریکارڈ ہونا چاہئے۔ زمین سے بے حساب پانی چوس لینے سے نیچے پانی کی سطح مزید نیچے جائے گی۔ یوں یہ کنویں بھی بیکار ہوجائیں گے۔ پھر لوگ بور والے کنویں مزید گہرے کھودیں گے اور پانی نکال لیں گے، یوں نیچے خلا پیدا ہوگا۔ علمائے ارض جانتے ہیں کہ نیچے خلا بن جانے سے یا تو زلزلے آئیں گے یا زمین نیچے بیٹھ جائے گی۔ کچھ ہی دن قبل ایک ٹیلی ویژن چینل نے کسی ملک میں زمین کو دھنستے ہوئے دکھایا جس میں کاریں اور عظیم بلڈنگ زمین کے اندر چلی گئیں۔
پانی کو ضائع کرنا۔ اُسے آلودہ کرنا ہم لوگ برائی ہی نہیں سمجھتے۔ میری دعا ہے کہ ٹی ایم اے سوات کم خرچ والی آگاہی مہم مسلسل چلائے، تاکہ لوگ اس طرف متوجہ ہوجائیں اور احتیاط شروع کریں۔ ملا، مدرسہ، میڈیا، سکول اور کالج سب مل کر پانی کے مسئلے بارے عوام کی تربیت کریں۔ خوش قسمتی سے بجلی کی عدم دستیابی پانی کھینچنے میں کمی لارہی ہے۔ اگر بجلی مسلسل دستیاب ہوئی، تو زیر زمین پانی زیادہ تیزی کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ خدا کرے کہ ہم لوگ خود اپنی اصلاح کریں، ورنہ خدا کے لیے مشکل نہیں کہ وہ لینن، سٹالن اور ماؤ کو ہم پر مسلط کرے اور وہ لوگ ’’اصلاحِ احوال‘‘ کریں، توبہ اور عمل صالح کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ ہزاروں سالوں سے جاری مینگورہ کا چشمہ (چینہ) یزید کے پیروکاروں نے ہڑپ کرلیا ہے۔ دریائے سوات کے میٹھے اور صاف پانی کا صدیوں پرانا نہر (گاگہ) کو تباہ کیا گیا۔ کیا اس نہر کو صاف کرواکر اس کے ذریعے غیر پینے کا پانی شہر میں نہیں لایا جاسکتا؟