سیدو بابا کے لنگر خانہ کے عقب میں ایک تنگ سے کوچہ میں ایک دو منزلہ پرانی طرز کی عمارت تھی اور اسی سے متصل سرکاری مہمان خانہ کے کمروں کی ایک طویل قطار تھی۔ یہ دو منزلہ عمارت کسی زمانہ میں وزیراعظم حضرت علی خان کی رہائش گاہ کا مردانہ حصہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی شاہی خزانہ کی عمارت تھی۔ مہمان خانہ کے شمالی پہلو میں ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد بنی ہوئی تھی جو مہمانوں کی سہولت کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ حالاں کہ چند سو قدم کے فاصلہ پر سیدوباباؒ کی عظیم الشان مسجد واقع تھی جس میں نماز پڑھتے ہوئے روح کو ایک عجیب قسم کی بالیدگی اور روحانی سکون کا احساس ہوتا تھا۔ اس چھوٹی سی مسجد کے شمالی پہلو میں دو کمروں کی عمارت بنی ہوئی تھی، اس کے کھلے صحن کے اردگرد لکڑی کی جعفری لگی ہوتی تھی۔ صحن کے اندر جانے کے لیے جعفری میں لکڑی کا دروازہ بنا ہوا تھا۔ چوں کہ امن کا دور دورہ تھا، تو حفاظتی نقطۂ نظر سے یہ جگہ بالکل غیر محفوظ تھی۔ اس کا بالکل کوئی خطرہ نہ تھا کہ کوئی اس میں داخل ہونے کی جرأت کرسکے گا۔ یہ چھوٹی سی عمارت دراصل ریاستِ سوات کے اس دور کے محکمۂ تعمیرات کے انچارج اور سربراہ کا دفتر تھا۔ ایک کمرہ وہ بطورِ رہایش گاہ استعمال کرتے تھے ۔ اسی رہایشی حصہ میں ان کے ساتھ ان کے ایک بیٹے بھی رہتے تھے۔ موصوف ناٹے قد کے ایک گھٹے ہوئے جسم کے مالک شخص تھے ۔ اُن کی گردن شاید تھی ہی نہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ اُن کا سر شانوں کے درمیان میں رکھ دیا گیا ہو۔ ان کے بیٹے ان سے حیرت ناک مماثلت رکھتے تھے ۔ ان میں دو نمایاں فرق باپ کی داڑھی اور بیٹے کا ناک میں بولنا تھا۔ موصوف ’’دستخط مستری‘‘ کے نام سے مشہور تھے اور کہا جاتا تھا کہ اُن کو اپنے دستخطوں اور ڈراینگ کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا تھا۔ پنجابی لہجہ میں پشتو بولتے تھے مگر بہت کم، زیادہ تر خاموش رہتے تھے۔ شام کو وہ سیر کے لیے نکلتے تھے، تو ان کے چلنے کا انداز بچوں کے لیے تفریح کا باعث ہوتا تھا۔ وہ گھڑیال کے پنڈولم کی طرح دائیں بائیں جھولتے ہوئے چلتے تھے۔ ایک قدم پر بائیں طرف تو دوسرے پر دائیں طرف۔ تیلیوں کا محلہ ان کے اردگرد پھیلا ہوا تھا اور ان کے چھوٹے بچے اکثر مستری صاحب کے پیچھے اُن کی نقل اتارتے ہوئے چلتے۔ ان کو احساس ہوتا تو پیچھے مڑ کر دیکھتے۔ بچے بھاگ کر اُن کی پہنچ سے دور ہوجاتے۔ ہمارا ذاتی طور پر اُن سے سال میں ایک ہی بار واسطہ پڑتا۔ جس زمانہ کی میں ذکر کر رہا ہوں، اُس وقت میرے بڑے بھائی کی عمر شاید دس سال ہی ہوگی۔ ہم دونوں رمضان مبارک سے ایک روز پہلے شام کو افسر آباد سے اُن کے ہاں چلے جاتے۔ وہ رمضان کے روزوں کا بہت اہتمام کرتے ۔ وہ مختلف جڑی بوٹیوں کا نہایت باریک سفوف تیار کرتے جس میں پودینہ بھی شامل ہوتا۔ افطار کے وقت اسی پاؤڈر کی ایک چٹکی آدھ سیر دہی میں ڈالتے، تو نہایت لذیز اور ہاضم چٹنی سی تیار ہوجاتی، وہ ہمیں اس سفوف کی اتنی مقدار دیتے تھے جو رمضان کے پورے مہینے کے لیے کافی ہوتی تھی۔ یہ میرے والد صاحب کے لیے اُن کے خلوص اور مہربانی کی نشانی تھی۔ اور یہی اَن پڑھ ادھیڑ عمر کا مستری جہاں زیب کالج کی عظیم الشان عمارت کا عملی معمار تھا۔
اس کی ڈرائینگ میاں گل جہانزیب حکمران ریاستِ سوات کے ذہنی اختراع اور ہدایات کی روشنی میں، ان ہی کی بنائی ہوئی تھی۔ وہ اس کے آرکیٹیکٹ بھی تھے اور راج مستری بھی۔ اینٹ بھی لگاتے تھے اور دوسروں کا کام بھی دیکھتے تھے ۔ اس عظیم الشان عمارت کی ہر کھڑکی، دروازہ اور الماری پر اُن کی مہارت کی چھاپ لگی ہوئی ہے ۔ یہ سیکڑوں کی تعداد میں ہیں لیکن ہر ایک کے مقام کا تعین، ایک دوسرے سے فاصلہ اور سایز سب اُن کے حافظہ کے کنٹرول میں تھا۔ کالج کی شاندار عمارت کے ساتھ سیدو ہاسٹل اور مینگورہ ہاسٹل بھی اُن کی تخلیقات ہیں۔ سیدو ہاسٹل ایشیا کا واحد ہاسٹل تھا جس کے ہر کمرے کے ساتھ اٹیچڈ غسل خانہ بنا ہوا ہے ۔ اس کے ڈایننگ ہال میں ہم نے جوانی میں کئی شاندار پروگرام انجوائے کیے ہیں۔ جب جہانزیب کالج کی عمارت مکمل ہوگئی اور اس میں کلاسز کا اجرا ہوا، تو میری عمر اس وقت نو سال تھی اور میں ہائی اسکول شگئی میں پرایمری کا طالب علم تھا۔ کالج میں پہلے غالباً نویں جماعت سے پڑھائی شروع ہوتی تھی، بعد میں جب طلبہ کی تعداد بڑھ گئی، تو کالج کے قریب سنٹرل جیل کی مضبوط اور مستحکم عمارت میں خاطر خواہ تبدیلیاں کرکے ودودیہ ہال اسکول کا آغاز کیا گیا۔ یہ پچاس سال پہلے والے ودودیہ ہائی اسکول کا دوسرا جنم تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ وہ ’’دستخط مستری‘‘ وہ نابغہ روزگار انجینئر اور آرکیٹیکٹ کہاں چلے گئے ؟ وہ کہاں سے ریاستِ سوات آئے تھے ؟ کیا کسی کو معلوم ہے؟ یہ ایک ملین ڈالر کے سوال ہیں۔ آج سے کوئی تیس سال پہلے ہم نے ایک دن اپنے دفتر کے پرانے ریکارڈ میں کسی کاغذ کی تلاش کے دوران میں ایک نہایت نایاب پنسل ڈرائینگ دیکھی، جس کو دیکھتے ہی ہم ٹھٹک کر رہ گئے۔ یہ جہانزیب کالج کی عمارت کا اوریجنل پلین تھا۔ ایک کونے میں اُسی کی اسکیل درج تھی 1/8=1جس کا مطلب کہ ایک انچ لمبائی آٹھ فٹ کے برابر ہے۔ اس کے ساتھ ’’دستخط مستری‘‘ کے دستخط تھے، جو پڑھے بھی نہ جاسکتے تھے۔ تاکہ معلوم تو ہوسکے کہ ان جوہر قابل کا اپنا نام کیا تھا؟ مجھے ایسا شک پڑتا ہے کہ ان کے بیٹے (جو ناک میں بولتے تھے اور جو بعد میں مجھ سے اسکول میں کچھ درجے سینئر تھے ) کا نام خدا بخش تھا۔
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔