اردو افسانے میں راشد الخیری کی اصلاحِ نسواں سے دلچسپی، پریم چند کی قوم پرستی، داستانی رومانیت اور سماجی اصلاح پسندی، محمد علی ردولوی کی ماضی پرستی، نفسیاتی پیچیدگیوں کا بیان اور داستان طرازی، یلدرم کی خالصتاً یورپی طرز کی رومانیت، نیاز کی سماجی اصلاح پسندی اور اصلاحِ نسواں کا جذبہ اور رومانی ذات کے حوالے سے معاشرتی انقلاب لانے کی کوشش، اس طرح اردو افسانے میں بلند آہنگی کی جگہ انسانی باطن کا عمل دخل بڑھ گیا اور تحریکِ سرسید کی بدمزہ اور خشک نثر کی جگہ ادبِ لطیف کو رواج ملا۔ اس وقت مجنوں نے عورت اور مرد کی محبت کو معاشرتی دباؤ سے آزاد دکھایا اور ٹامس ہارڈی، ہیگل وغیرہ کے اثرات کے تحت رومان اور فلسفے کا حسین امتزاج پیش کیا۔ یوں اردو افسانے میں ایک نئی الم پسند رو چل نکلی۔ اس نئی رومان پسند رو میں مسز عبدالقادر اور حجاب امتیاز علی کا حصہ بھی کچھ کم نہیں۔
مجنوں گورکھپوری نے لکھا ہے: ’’1920ء کے بعد ادبِ لطیف کا زور تھا۔ ناول اور افسانے میں یا تو اصلاحی میلان جس کی تنہا نمائندگی پریم چند کر رہے تھے یا وہی رومانی میلان جو ادبِ لطیف کی روح رواں تھا اور جس کے نمائندے سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری کی سرکردگی میں اکثریت میں تھے۔ میرے ناولٹ اور افسانے اسی سلسلہ کی آخری کڑی ہیں۔‘‘
مجنوں کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’خواب و خیال‘‘ 1932ء میں چھپا۔ اس میں شامل افسانوں میں حقیقت اور رومان کا ایسا دلکش امتزاج تھا کہ اُٹھتی جوانیاں جذبات کے طوفان میں بہنے لگتی تھیں۔
رومانیت یا رومانس بھی زندگی کی ایک قدر ہے۔ تخیلیت اور جذباتیت کی اہمیت سے انکار انسان کو اجتماعیت کی مشین کا اِک پرزہ بنا کے رکھ دیتا ہے اور فرد کی انفرادیت ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ علم کا سفر دراصل معلوم سے نامعلوم کا سفر ہے۔ رومان نگار بھی ماضی کی اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ اردو افسانے میں رومانیت کے ایک بڑے نام مرزا ادیب نے افسانہ ’’خونیں‘‘ (1936ء) لکھ کر ایک رومان نگار کی حیثیت سے شہرت پائی۔ ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ اور ’’صحر انوردکے رومان‘‘ لہجے کے اعتبار سے رومانی تحریریں ہیں، ان داستان نما افسانوں کی تحیّر آفرینی اور حقیقت اور رومان کا حسین امتزاج خاص طرح کی معنویت کا حامل ہے۔
اردو افسانوں میں ہم آہنگی کی انتہائی دلکش مثالیں ملتی ہیں۔ ان افسانوں میں حسین تصورات اور ماضی کی یادوں کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ کبھی کبھی زندگی حسین یادوں کا اک مرقع دکھائی دینے لگتی ہے اور اک ایسا تصورِ زیست نظروں کے سامنے رقصاں ہو جاتا ہے جو صرف اَلف لیلوی کہانیوں سے مخصوص ہے۔ ان رومان پسند افسانوں میں بھولے بسرے گیتوں کی صدا کے ساتھ ساتھ حسن و رعنائی اور حسین یادوں کے پردے میں تلخ حقائق بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔
اختر حسین رائے پوری ترقی پسند نقاد کی حیثیت سے سامنے آئے۔ ان کا مضمون ’’ادب اور انقلاب‘‘ کو ترقی پسند تنقید کی بنیاد کہا جا سکتا ہے۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کی پہلی اور آخری پہچان مجموعہ ’’محبت اور نفرت‘‘ کے افسانے ہیں۔ ترقی پسندی ایک عالمی تحریک تھی، جس نے حقیقت نگاری کو اپنے اندر سمو کرادب کو زندگی کے قریب کر دیا۔ ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں: ’’ترقی پسند تحریک کو اولین فکری اساس اختر حسین رائے پوری کے مقالہ ’’ادب اور زندگی (1975ء) نے فراہم کی جس میں گورکی اور ٹالسٹائی کے خیالات کو اردو دان طبقے میں متعارف کرانے کی کاوش کی گئی تھی۔‘‘
ارد وافسانے کا آغاز داستان کے اثرات کے تحت ہوا۔ اولین افسانہ نگاروں کے افسانے اس کے شاہد ہیں، لیکن رفتہ رفتہ مغرب پسندی کی رو انہیں بہا لے گئی۔ وقتی شہرت سمیٹنے کی خاطر اردو افسانہ نگار مغربی واقفیت کے سامنے جھک گئے۔ یہیں سے اردو میں پریم چندی، حقیقت پسندی کا شہرہ ہوا اور اسے اردو افسانے کی توانا ترین روایت قرار دیا گیا اور محمد علی ردولوی کی روایت پسندی کو داستان کی بازیافت کے حوالے سے یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔
رومان نگاروں نے بھی داستان کے گہرے اثرات قبول کیے۔ افسانوی مجموعہ ’’کیمیا گر‘‘، ’’انگارے‘‘ کے افسانے اور ترقی پسند تحریک بھی ماضی سے رشتہ ناتا توڑ لینے کا اعلان کرتی ہے۔ یہاں لمحہ موجود ہی مرکزِ نگاہ ہے اور پیٹ پوجا کا واویلا، زندگی کی بقا کا ضامن ہرگز نہیں۔ یہ تحریک شخصی رویوں سے بھاگ کر اجتماعی خارزاروں میں اپنا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔