یادِ ماضی عذاب ہے یا رب

یہ 28 دسمبر 2007ء کی ایک سرد دوپہر تھی۔ جمعہ کا دن تھا۔ شہزادہ اسفندیار امیر زیب صوبائی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سرگرم تھے اور اپنے حلقہ کے لوگوں سے مل رہے تھے۔ وہ اُس روز منگلور گئے ہوئے تھے۔ منگلور اور اردگرد کی دیہات میں وہ ہر دِل عزیز تھے۔ منگلور میں شہزادہ اسفندیار امیر زیب کا ساتھ دینے کے لیے بخت مند خان، پروفیسر ظاہر شاہ خان، عظیم خان، محمد اعظم خان اور خورشید خان بھی حاضر تھے۔ انھوں نے آپس میں طے کیا تھا کہ آج ’’شنگریٔ گاؤں‘‘ میں انتخابی مہم چلانے کے لیے جائیں گے۔ لوگوں سے ملیں گے اور نمازِ جمعہ "کس شنگریٔ” میں پڑھیں گے۔ لیکن انھیں کیا پتا تھا کہ منگلور سے نکلنے کے بعد اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور تقدیر انھیں کہاں لے جا رہی ہے؟ وہ اور اُن کے ساتھی سب بے فکر تھے، لیکن چند درندے جو بظاہر انسان تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ ٹھیک ہوگا کہ جنگل کے خوں خوار درندے بھی اُن سے کافی پیچھے رہ گئے تھے۔ ان درندوں نے ریموٹ بم سے دھماکا کیا اور انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔
بم دھماکا میں پرنس اسفندیار امیر زیب، منگلور کے بخت مند خان، انجینئر پروفیسر ظاہر شاہ خان، عظیم خان،خورشید خان اور محمد عظیم خان کے پرخچے اُڑ گئے۔ دور بہت دور ایک پہاڑی پر شہزادہ اسفندیار امیر زیب کا دھڑ پایا گیا۔
اسفندیار امیر زیب کا ڈرائیور سردار اور گن مین جاوید آف اسلام پور کی لاشیں پہچان کے بھی قابل نہ تھیں۔ ہر طرف انسانی خون ہی خون تھا۔ انسانی اعضا اور بوٹیاں ادھر اُدھر زمین پر بکھیر گئی تھیں۔ انسان رو رہا تھا اور شیطان رقص کناں تھا۔ انسانیت منھ چھپائے خود پر رو رہی تھی۔ دھماکا کی سماعت خراش آواز اور آسمان کو چھوتے ہوئے گرد اور دھوئیں کے بادلوں میں مقامی لوگ مدد کو دوڑے چلے آئے۔ کہتے ہیں کہ گھروں میں باپردہ خواتین جائے وقوعہ پر ایسی حالت میں پہنچیں کہ کسی کے پاؤں میں جوتی تھی نہ کسی کے سر پر چادر لیکن وہ پھر بھی مدد کے لیے حاضر تھیں۔ اسی اثنا میں گاؤں کے مرد، بوڑھے اور بچے تک پہنچ گئے۔ یہ ایک دل خراش منظر تھا۔ موقع پر موجود لوگ بکھرے پڑے انسانی اعضا کو اکھٹا کر رہے تھے۔ اس روز انسانیت اپنی شناخت کھو چکی تھی۔ انسانیت بے نام ہوگئی تھی۔ ایک انسانی ٹانگ پر لوگوں کی نظر پڑی۔ ٹانگ کے پاؤں میں ایک جوتا نظر آیا اور جوتے نے اپنے پہننے والے کی پہچان کرا دی کہ میں بخت مند خان کے پاؤں میں پڑا ہوا ہوں۔ جی ہاں، بخت مند خان منگلور گاؤں کی ایک قدر آور شخصیت اور ہر دل عزیز خان تھے۔ کوئی جرگہ منگلور میں اُن کی غیر موجودگی میں نہیں بلایا جاتا تھا۔
اس طرح پروفیسر ظاہر شاہ خان صاحب تو ایک علم پرور شخصیت تھے۔ وہ میرے بہت قریبی دوست بھی تھے۔
منگلور میں امام نے نماز جنازہ پڑھائی۔ میتوں کی بجائے انسانی اعضا، گوشت کی سوختہ بوٹیوں کو چارپائیوں میں رکھ کر امام صاحب نے اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر کی تکبیر بہ آواز بلند پڑھی اور قبروں میں میتوں کو اُتارنے کی بجائے انہی انسانی اعضا اور بوٹیوں کو اتارا گیا۔ ایک قبر میں بخت مند خان کی ٹانگ رکھی گئی۔
اُدھر سیدو شریف میں اسپتال کی کیجولٹی میں شہزادہ اسفندیار امیر زیب کا آدھا دھڑ ساری رات پڑا رہا۔ ڈاکٹروں نے ان کے چہرے کو خون سے صاف کیا اور اسے دیکھنے کے لایق بنایا۔ وہ محسنِ سوات میاں گل جہانزیب کے پوتے اور جنرل ایوب خان کے نواسے تھے۔
نماز جنازہ کے بعد اُنہیں دفن کیا گیا۔

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔