عدل و انصاف سے امن قائم رِہ سکتا ہے

سورۃالنساء میں تمام مسلمانوں کو عدل و انصاف پر قائم رہنے اور سچی گواہی دینے کی ہدایت کی گئی ہے اور جو چیزیں قیامِ عدل یا سچی گواہی میں رکاوٹ ہوسکتی ہیں، ان کو نہایت بلیغ انداز میں دور کیا گیا ہے۔ دنیا میں آدم علیہ السلام کو خلیفہ اللہ بناکر بھیجنے کا اور پھر ان کے بعد دوسرے انبیاء علیہ السلام کو یکے بعد دیگرے بحیثیت خلیفہ اللہ بھیجتے رہنے کا اور ان کے ساتھ بہت سی کتابیں اور صحیفے نازل فرمانے کا اہم مقصد یہی تھا کہ دنیا میں انصاف اور اس کے ذریعہ امن و امان قائم ہو۔ ہر فردِ انسانی اپنے اپنے دائرہ اختیار میں انصاف کو اپنا شعار بنالے، اور جو سرکش لوگ وعظ و پند اور تعلیم و تبلیغ کے ذریعہ عدل و انصاف پر نہ آئیں، اپنی سرکشی پر اڑے رہیں، ان کو قانون، تعزیر و سزا کے ذریعہ انصاف پر قائم رہنے کے لیے مجبور کیا جائے۔
قارئین کرام! انصاف قائم کرنا اور اس پر قائم رہنا صرف حکومت اور عدالت کا فریضہ نہیں بلکہ ہر انسان اس کا مکلف و مخاطب ہے کہ وہ خود انصاف پر قائم رہے اور دوسروں کو انصاف پر قائم رکھنے کے لیے کوشش کرے۔ ہاں، انصاف کا صرف ایک درجہ حکومت اور حکام کے ساتھ مخصوص ہے، وہ یہ کہ شریر اور سرکش انسان جب انصاف کے خلاف اَڑ جائیں، خود انصاف پر قائم رہیں اور نہ دوسروں کو عدل و انصاف کرنے دیں، تو حاکمانہ تعزیر اور سزا کی ضرورت ہے۔ یہ اقامت عدل و انصاف ظاہر ہے کہ حکومت ہی کرسکتی ہے جس کے ہاتھ میں اقتدار ہے۔
آج کی دنیا میں جاہل عوام کو چھوڑیئے، پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ حضرات بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انصاف کرنا صرف حکومت و عدالت کا فریضہ ہے۔ عوام اس کے ذمہ دار نہیں اور یہی وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس نے ہر ملک، ہر سلطنت میں حکومت اور عوام کو دو متضاد فریق بنا دیا ہے۔ ہرملک کے عوام اپنی حکومت سے عدل و انصاف کامطالبہ کرتے ہیں، لیکن خود کسی انصاف پر قائم رہنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ اس کا نتیجہ ہے جو دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ جرائم کی روز افزوں ترقی ہے۔ آج ہرملک میں قانون سازی کے لیے اسمبلیاں قائم ہیں۔ اُن پر کروڑوں روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ ان کے نمائندے منتخب کرنے کے لیے الیکشن میں خدا کی پوری زمین ہل جاتی ہے اور پھر یہ پورے ملک کا دل و دماغ ملک کی ضروریات اور لوگوں کے جذبات و احساسات کو سامنے رکھتے ہوئے بڑے احتیاط کے ساتھ قانون بناتے ہیں۔ اور پھر رائے عامہ کے لیے شائع کرتے ہیں۔ رائے عامہ معلوم کرنے کے بعد یہ قانون قابلِ تنقید سمجھا جاتا ہے۔ پھر اس کے نفاذ کے لیے حکومت کی لا تعداد مشینری حرکت میں آتی ہے، جس کے ہزاروں بلکہ لاکھوں شعبے ہوتے ہیں اور ہر شعبہ میں ملک کے بڑے بڑے آزمودہ کار لوگوں کی محنتیں بروئے کار آتی ہیں۔ جن لوگوں کو خواہ مخواہ تہذیب اور شائستگی کا ٹھیکیدار مان لیا گیا ہے، تھوڑی دیر کے لیے ان کی کورانہ تقلید سے نکل کر حقیت کا جائزہ لیا جائے تو ہر شخص بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ
نگاہِ خلق میں دنیا کی رونق بڑھتی جاتی ہے
مری نظروں میں پھیکا رنگِ محفل ہوتا جاتا ہے
اب سے سو سال پہلے 1857ء سے 1957ء تک کا ہی موازنہ کریں۔ اعداد و شمار محفوظ ہیں، وہ گواہی دیں گے کہ جوں جوں قانون سازی بڑھی، قانون میں عوام کی مرضی کی نمائش بڑھی اور تنقیدِ قانون کے لیے مشینری بڑھی۔ ایک پولیس کے بجائے مختلف اقسام کی پولیس بروئے کار آئی۔ اتنے ہی روز بروز جرائم بڑھے۔ اورلوگ انصاف سے دور ہوتے چلے گئے۔ اسی رفتار سے دنیا کی بدامنی بڑھتی چلی گئی۔ کوئی مرشد نہیں جو آنکھ کھول کر دیکھے اور چلتی ہوئی رسموں کی جکڑ بندی کو توڑ کر ذرا رسولِ عربیؐ کے لائے ہوئے پیغام کو سوچے سمجھے اور اس حقیقت پر غور کرے کہ دنیا کے امن و سکون کی ضمانت صرف عقیدۂ آخرت اور خوفِ خدا دے سکتا ہے،جس کے ذریعہ سارے فرائض عوام اور حکومت میں مشترک ہوجاتے ہیں۔ اور ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ قانون کے احترام و حفاظت کے لیے عوام یہ کہہ کر اَڑ نہیں ہوجاتے کہ یہ کام حکام کا ہے۔
عدل و انصاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر صاحبِ حق کا حق پورا ادا کیا جائے۔ اسی کے عموم میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی داخل ہیں اور سب قسم کے انسانی حقوق بھی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم میں ہر کوئی اپنے حق کے لیے جلسے جلوس نکالتا ہے۔ ہڑتال کی جاتی ہے۔ محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، لیکن کبھی ہم نے یہ سوچا کہ ہم پرکسی کا حق ہے کہ نہیں؟ ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کا حق مقدم رکھیں۔ کوئی کسی پر ظلم نہ کرے اور ظالم کو ظلم سے روکا جائے۔ ظالم کو ظلم سے روکنے اور مظلوم کا حق دلوانے کے لیے شہادت یعنی گواہی کی ضرورت پیش آجائے، تو گواہی سے گریز نہ کیا جائے اور یہ بھی ضروری ہے کہ شہادت میں حق اور حقیقت کا اظہار کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت اور انتظام ہے، جب دو فریق کا کوئی مقدمہ ان کے سامنے پیش ہو، تو فریقین کے ساتھ برابری کامعاملہ کریں۔ گواہوں کے بیانات غور سے سنیں۔ مقاصد کی تحقیق میں اپنی پوری کوشش خرچ کریں۔ پھر فیصلہ میں پورے عدل و انصاف کا معاملہ رکھیں۔
لہٰذا سورۃ النساء میں پوری دنیا کو عدل و انصاف پر قائم کرنے اور قائم کرانے کے لیے جو زریں اصول اختیارکیے گئے ہیں، وہ بھی قرآنِ عظیم ہی کی خصوصیات میں سے ہیں کہ عوام خود بھی قانون کا احترام کریں اور حکام جو تنقیدِ قانون میں خدا وآخرت کو سامنے رکھ کر خلقِ خدا کے خادم بنیں۔
قانون کو خدمتِ خلق اور اصلاحِ عالم کا ذریعہ بنائیں۔ لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ اور مظلوم کو دفتر گردی کے چکر میں پھنسا کرمزید ظلم پر ظلم کا سبب نہ بنائیں۔
قانون کو اپنی ذلیل خواہشات یاچندٹکٹوں میں فروخت نہ کریں۔

………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔