30 جنوری2018ء کو روزنامہ آزادی کے توسط سے ایک بیان بعنوان ’’ تحریکِ تحفظ قدیمی سواتی کا مقصد حقوق کا تحفظ ہے‘‘ نظر سے گزرا، جس کے لیے مرکزی صدر شیرین سواتی، صوبائی صدر نور حبیب ناز سواتی اور سینئر نائب صدر سلطان زرین سواتی نے مٹہ میں ایک تنظیمی اجلاس منعقد کیا تھا۔ اس اجلاس میں ملاکنڈ ڈویژن کے اکثر تنظیمی ارکان شامل تھے۔ مقررین نے حصولِ حقوق کی خاطر آخری دم تک لڑنے، اپنے ساتھ ہونے والی بے انصافیوں کو ختم کرنے اور تنظیم کے قائدین کا ساتھ دینے کا عزم کیا تھا۔ نیز انھوں نے جمہوری، آئینی اور قانونی راہ نکالتے ہوئے شہری حقوق اور قومی شناخت کا پُرزور مطالبہ کیا تھا۔
جنابِ صدر صاحب! یہ آپ کا آئینی، قانونی اور بشری حق ہے۔ اس کے لیے آپ جتنی محنت کریں، اتنا ہی آپ کا قومی جذبہ بیدار ہوگا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ قدیم سواتی قوم ایک شاندار ماضی رکھتی ہے۔ اکثر تاریخ دان متفق ہیں کہ سوات کی بہترین زراعت اور اعلیٰ نہری نظام سواتیوں کا مرہونِ منت ہے، لیکن آپ کا جملہ’’ ہم نے ساڑھے بارہ سال حکومت کرکے ایک زندہ قوم کی تاریخ رقم کر دی‘‘ تاریخی نقطہ نظر سے سمجھ میں نہیں آتا۔ کئی ایک تاریخ دانوں سے پوچھا، ممکن حد تک چھان بین کی اور متعلقہ کتابوں کی ورق گردانی بھی کی، مگر مرغی کی وہی ایک ٹانگ۔ تاہم دماغ لڑانے اور کتب ٹٹولنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس قوم پر قلم اُٹھانے تحریک تو ملی، جس کے حقوق و تحفظ کے لیے آپ میدانِ عمل میں ہیں۔
دراصل لفظ ’’سواتی‘‘ سوات میں رہنے والے لوگوں کے لیے بعد میں آنے والے یوسفزئیوں نے استعمال کیا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے، جنھیں سوات سے بے دخل کیا گیاتھا اور جو سواتی یہاں باقی رہ گئے تھے، اُن کو فقیر کہتے تھے۔ یعنی فقیروں کا زیادہ تر حصہ سواتیوں پر مشتمل ہے۔ اب قدیم سواتی ریاست کی طرف آتے ہیں، جس کی حدود محمد جمیل کا چوخیل اباسین یوسفزئی کی کتاب ’’د پختونخوا بانی‘‘ کی روسے اپنے مقالے میں صفحہ116 پر یہ بتاتے ہیں: ’’حصار اشنغر نالی سے سری بالول، حصار بیغم، کاٹلنگ، سنگاؤ، شیرخانی، بازدرہ، مورہ سر ، ٹوٹئی، کاجکلہ، سیورئی اور ملاکنڈ کا میدانی علاقہ۔ اشنغر میں شلمانی اور باقی سارے علاقوں میں دہگان آباد تھے، جو سلطان پکھل کی رعایاتھے۔‘‘
دہگان کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود تواریخ حافظ رحمت خانی کی رو سے ’’دلہ زاک کے مال گذار اور رعایا تھے۔‘‘جب کہ شلمانی بھی اشنغر میں سواتی بادشاہ کے ماتحت تھے۔ ان کے علاوہ سواتیوں میں تاجک وغیرہ کی صورت میں پارسی اور دری زبانیں بولنے والے بھی تھے۔ تاریخ اور آثارِ قدیمہ کے ماہر کہتے ہیں کہ سواتیوں کے دورِ حکمرانی میں ’’ درد لوگ‘‘ زیادہ تر ہندو تھے جب کہ سواتی قوم میں بقولِ ڈاکٹر بدر الحکیم حکیم زئی پشتون بھی تھے، جن کے بارے میں موصوف اپنی کتاب ’’ سوات میں انتہا پسندی کے چند محرکات‘‘ کے صفحہ نمبر15پر لکھتے ہیں: ’’ قدیم سواتیوں میں دلہ زاک، وردگ، ساپی، خٹک، سرکانڑی، متراوی، کاکڑ، مشوانڑی، روغانی اور شلمانی وغیرہ پشتون تھے، جن کی سیاسی قیادت دلہ زاک کے جہانگیر خیل کے ہاتھ میں تھی۔‘‘ جہانگیر ہی وہ پہلا حکمران تھا جس نے سلطان کا لقب پایا تھا۔ بعد میں آنے والے سلطان پکھل، سلطان اویس اور میر ہندا تھے۔ ان چاروں کے علاوہ تاریخ کسی اور سلطان کے بارے میں خاموش ہے۔ شہباز محمد کتاب ’’سواستو‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’(ترجمہ) سلطان جہانگیر، پکھل، اویس اور میرہندا ان کے مشہور بادشاہ ہو گذرے ہیں۔‘‘ حالاں کہ میرہندا شاہ اویس کا گورنر یا ملک تھا۔ البتہ حسن متراوی ایک الگ سلطنت کے مالک ضرور تھے۔ محمد جمیل کاچوخیل کے مطابق یوسفزئیوں کے آنے سے پہلے سوات میں دو قومیں تھیں۔ ایک ملک اویس جو سوات کے ایک بڑے رقبے کے حکمران تھے، دوسرا حسن متراوی جن کی ریاست دریائے سوات کے مغربی کنارے پر واقع تھی۔ اس طرح سلطان پکھل جس کو شہباز محمد، جہانگیر کا بیٹا ظاہر کرتا ہے اُس سلطان پکھل سے مختلف ہے جو غزنویوں کے خلاف لڑائی میں سلطان شہباب الدین محمد غوری کا ہمرکاب تھا، جس نے سوات، بونیر، باجوڑ وغیرہ کے ساتھ ساتھ ہزارہ اور کشمیر کے بارہ مولا تک علاقہ فتح کرکے منگلور میں مستحکم تاریخی حکومت قائم کی تھی۔ سواتیوں کے خلاف یوسفزیوں کی پہلی لڑائی مورہ اور ملاکنڈ، دوسری تھانہ اور الہ ڈنڈ، تیسری دارالخلافہ جب کہ چوتھی تالاش کے مقام پر لڑی گئی تھی۔ مؤخرالذکر لڑائی دہگانوں کے خلاف تھی۔مقامی لوگ اسی دوران میں 12 بارہ سال تک پہاڑوں میں محصور ہوئے تھے۔ آخرِکار 1515ء میں یوسفزیوں کا قبضہ مکمل ہوا اور دلہ زاک، دہگان اور شلمانی وغیرہ نورستان، چترال اور چجھ ہزارہ وغیرہ میں پناہ گزین ہوئے جب کہ باقی ماندہ فقیر کہلانے لگے۔
اب سواتیوں کا نسلی تجزیہ کرنے کے لیے تاریخ کو مزید ٹٹولتے ہیں۔ سواتیوں کے بارے میں تفصیل سے بتانے والے واحد مصنف الفنسٹون (Elphinstone) ہے۔ اُن کے مطابق ’’سواتیان جن کو بعض اوقات دغون (Deggouns) کہا گیا ہے، لگتا ہے ہندوستانی نژاد ہیں۔‘‘ ان کا نظریہ جزوی طور پر درست تسلیم کیا جاسکتا ہے، کلی طور پر نہیں۔ کیوں کہ ایک طرف سواتی مخلوط النسل ہیں۔ دوسرا ان کا نسلی اور لسانی تضاد ہے جو ان کے مابین ابتدائی سکونت کے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً تاجک، دردی، دلہ زاک، شلمانی، دہگان وغیرہ۔ گجر اور کوہستانی بھی ایک حوالے سے سواتی ہیں۔ اس معمہ کو حل کرنے کے لیے دہگان، دلہ زاک اور شلمان کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ تواریخِ حافظ رحمت خانی دہگان، دہقان یا دودان کو میر ہندا کی رعایا گردانتی ہے جب کہ محمد جمیل کاچوخیل تالا ش کی لڑائی کو دہگان کافروں کے خلاف لڑنے والی جنگ کہتے ہیں ( یاد رہے پشتون ہر اُس قوم کو کافر بولتے تھے جو ان کے مسلک سے باہر تھے، میجر راورٹی)۔ بہرحال لفظ ’’سرۂ کافر‘‘ اُن سے منسوب تھا، جن کی اصل نسل کے بارے میں محقق ڈاکٹر عبدالطیف بادِ طالبی اپنی کتاب ’’ پختنی قبیلی شجری‘‘ میں رقم کرتا ہے: ’’(ترجمہ) سرہ کافر پشاور اور دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر آباد تھے۔ یہ لوگ گریکوسکترین کی نسل سے تھے، جو ابتدا میں دہگانوں اور اصلی سواتیوں کے آبا واجداد تھے۔ یہ لوگ پشاور اور راولپنڈی سے لے کر جلال آباد تک کے رقبے پر آباد تھے جنھیں بعد میں دلہ زاک نے سوات اور بونیر کے پہاڑی دامنوں تک پہنچادیا۔‘‘
اس کے بالکل برعکس انھیں ایران اور شام سے ہجرت کرنے والی زمیندار قوم بھی کہا گیا ہے جن کی اپنی زبان تھی اور وہ کھیتی باڑی پر گزر بسر کرتے تھے۔ اس طرح دلہ زاک ہیں جو کابل کے بادشاہ مرزا الغ بیگ کے زمانے میں پشاور دوآبہ، باجوڑ، ننگرہار، کلپانڑئی، ہزارہ اور دریائے سندھ تک کے علاقوں میں آباد تھے جنھیں نہ صرف پختونخوا میں پہلے پختون قبیلہ ہونے کا شرف حاصل ہے بلکہ یہ لوگ اپنی طاقت اور مال کی وجہ سے بھی بہت مشہور تھے۔ عنعنوی شجرہ کی رو سے دلہ زاک کرلانڑی پختون ہیں لیکن تاریخی اسناد سے ساکی پختونوں کی شاخ ہونے کی شہادت ہوتی ہے۔‘‘
’’سوات سماجی جغرافیہ‘‘ کے مصنفین کی رو سے دلہ زاک کی بحوالہ افغان کہیں سے تصدیق نہیں ہوسکتی۔ علم الانساب اسے اورکزی اور اتمان خیل کے بھائی بتا تے ہیں جب کہ ’’ بیلو‘‘ کے خیال میں یہ لوگ بنیادی طور پر (Scythic) تھے جو پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں جاٹ اور کٹی کی عظیم یلغار کے بعد مقامی گندھاری لوگوں کو ہلمند کی طرف دھکیل کر یہاں پر قابض ہوگئے تھے۔ تیسرا قبیلہ یا قوم شلمانی ہے جو قوم کے لحاظ سے سڑبنی پشتون ہیں، جنھیں شلمان میں رہنے کی وجہ سے شلمانی کہا گیا ہے۔ دیگر قوموں اور قبیلوں پر بحث کی جاسکتی ہے لیکن مضمون کی تنگ دامنی آڑے آ رہی ہے۔
حاصلِ بحث یہ ہے کہ قدیم سواتی لوگ ایک قوم یا قبیلہ نہ تھے۔ یہ تو سوات میں رہنے کی وجہ سے ان کا مشترکہ نام ’’سواتی‘‘ پڑگیا۔ آج بھی لوگ انھیں سواتی نام سے پکارتے ہیں۔ سواتوں کلے، ڈھیرئی اور سواتوں چم اس کی مثال ہے۔ سنگوٹہ، اینگروڈھیرئی اور دنگرام وغیرہ میں بھی سواتی بستے ہیں۔ سخرہ کے آس پاس تاجک، ملیان، آزاد بانڈہ کی سرکانڑی، الیگے (کوٹنئی) کے وردگ، میاندم کے قرب و جوار میں شلمانی، برہ درشخیلہ میں کاکڑ، کوزہ درشخیلہ میں روغانی، منگرا، خدنگ اور تلئی جبڑئی وغیرہ کے ساپی سواتیوں کی آبادی ظاہر کرتے ہیں۔ ان علاقوں کے علاوہ شین کے مشرق میں دہگانوں کلے موجود ہے۔ غرض یہ کہ ملاکنڈ ڈویژن کے اکثر علاقوں کے ساتھ ساتھ ہزارہ، چترال اور افغانستان وغیرہ میں قدیم سواتی پائے جاتے ہیں۔ مزید براں اردو زبان و ادب کے مشہور شاعر نیاز سواتی، معروف سیاستدان اعظم سواتی، پروفیسر عبد الرازق سواتی اور ماہر تعلیم محمد فاروق سواتی جیسی شخصیات ان کی عظمت کامنھ بولتا ثبوت ہیں۔
اس تمام تر بحث سے ثابت ہوا کہ معاشرہ کی تشکیل کسی ایک فرد، خاندان، قبیلہ اور قوم کی بس کاکام نہیں ہے۔ متعدد قبیلے باہمی رسم ورواج، زبان اور اور ثقافت کی بنیاد پر قومی پہچان بنانے کے متحمل ہوسکتے ہیں، جس طرح سوات کی ہزاروں سال پر محیط تاریخ کئی قومیں اور مخلوط معاشرے بنا چکی ہے جس میں ایک کا زوال دوسرے کا عروج بنتا تھا اور اعلیٰ و ادنیٰ، امیر و غریب اور زبردست و زیر دست کا تصور انسانی حسبیت، اس کی طاقت اور چالاکی سے پیدا ہوتا تھا۔ سوات کی سونا اُگلنے والی سرزمین، اس کی مذہبی حیثیت اورآب وہوا ایسے عوامل ہیں جس کی وجہ سے سوات مختلف زمانوں میں تاجروں، مذہبی پیشواؤں اور دیگر حملہ آوروں کے لیے باعثِ کشش اور باعثِ توجہ بنا ہے۔ قوموں اور قبیلوں کا عروج وزوال تو ویسے بھی ایک مسلم حقیقت ہے جس میں اکثر انسانی صلاحیتیں بھی کار فرما ہوتی ہیں۔ مثلاً مغل شہنشاہیت کے عروج کا زمانہ دیکھنے والے یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ مستقبل کے ہندوستان میں چراغ لے کر مغل کو ڈھونڈنا پڑے گا۔ بحث کا مقدم اور ضروری پہلو یہ ہے کہ ہر انسان کی قومی، علاقائی اور قبیلوی پہچان ضرور ہونی چاہیے، جو اُس کا بشری اور بنیادی حق ہے۔ اس کی کی جھنجھٹ سے نکل کر ملک و ملت کے بارے میں مثبت سوچ و بچار رکھنے کی ضرورت ہے۔
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔