قانون میں فوجداری مقدمہ (کریمنل سوٹ)، رپورٹ درج کرانے والے کو مستغیث، سائل، درخواست کنند یا سائل (ایپلی کینٹ یا پیٹیشنر) کہتے ہیں جب کہ مخالف فریق مسؤل الیہ، ریسپانڈنٹ کو سائل؍ مسؤل الیہ ملزم کہا جاتا ہے۔ سول یعنی دیوانی مقدمہ دعویٰ کرنے والے کو مدعی اور مدعا علیہ بالترتیب اور درخواست کنندہ کو سائل کہتے ہیں۔ فریقین سول اور فوجداری عدالتوں کو مقدمات میں تنازعات کو حل کرنے کے لیے اورشنوائی کی پہلی سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تاکہ بعدازاں اعلیٰ عدالتوں کو مقدمہ سننے میں آسانی ہو۔ یاد رہے کہ اعلیٰ عدالتوں کو دعویٰ کے برخلاف اپیل جج صاحبان کے فیصلوں کے خلاف کی جاتی ہے۔ اپیل اعلیٰ عدالتوں کو کی جاتی ہے اور اس سطح پر فریقین اپیل کنندہ کو اپیلانٹ اور ریسپانڈنٹ مقدمہ کہتے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں اپنے اصل مقصد کی طرف کہ کیسے پیشہ ور مقدمہ باز، قانون کو بازیچۂ اطفال سمجھ کر مخالف فریق کو جھنجھٹ میں ڈال کر اُسے ذہنی کوفت، جسمانی اور مالی نقصان کا شکار کرتا ہے! قانون غلط اور بے بنیاد دعویٰ یا رپورٹ درج کرنے والے کو کیا سزائیں تجویز کرتا ہے، قانون میں کیا سقم ہے کہ اصل فریق سزا سے بچ جاتا ہے اور فریقِ مخالف کو بلاوجہ سخت قانونی کارروائی سے گزارتا ہے؟ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سیکورٹی ادارے اپنے ناقص نظامِ تفتیش اور غلط رپورٹ کی وجہ سے مقدمہ درج کرواتے ہیں جس کی وجہ سے مخالف فریق کو سالوں کورٹ کچہریوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ اس وجہ سے دعویٰ، مدعی اور پولیس رپورٹ دائر کرنے والے کے خلاف کچھ کیا جاتا ہے، اور نہ فریقِ دوم کو ہی دادرسی ملتی ہے۔ بس ایک بے معنی سی کارروائی سے فریقین ایک دوسرے اور عدالتوں کے قیمتی وقت کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہتے ہیں۔
یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ جب سائل مدعی اپنے حق کے لیے کوئی درخواست یا دعویٰ داخل کرتا ہے، تو عدالت شہادتوں اور ثبوتوں کی بنا پر اس کا فیصلہ کر دیتی ہے، لیکن اس کا فیصلہ نہیں ہوتا کہ جب مخالف فریق پر بلاوجہ کیس کیا جاتا ہے، تو اس کو کیا قانونی حقوق اور داد رسی میسر ہوتی ہے؟ یہ سوال مگر اکثر اوقات تشنہ ہی رہتا ہے۔ بس صبر ہی سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ کسی حدتک صحیح ہے کہ مسؤل الیہ کے جوابِ درخواست اور جوابِ دعویٰ کے خلاف عدالتیں ثبوت اور بارِ ثبوت کی بنا پر اس کے حق میں یا برخلاف فیصلہ کرتی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بلاوجہ فریقِ مخالف پر کیچڑ اچھالنا اور ہتک عزت کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
یہ بھی ٹھیک ہے کہ دعویٰ کے بعد مدعی یا مستغیث مقدمہ کو ہرجانے اور نقصان کی تلافی کے لیے قانون کے مطابق مقدمے کا اختیار ہوتا ہے، لیکن اس صور ت میں فریقِ مخالف کے پہلے ہی سے کافی اخراجات ہوچکے ہوتے ہیں اور اس کے وسائل تقریباً ختم ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس میں سکت نہیں ہوتی کہ وہ دیگر کارروائیوں کا متحمل ہو، کیوں کہ یہاں پر انصاف کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف جو ہے۔ انصاف بھی ایسا کہ جو صرف انصاف نہ ہو بلکہ ایسا انصاف جو ہوتا ہوا دکھائی بھی دے۔ قانونی عملیات میں سست روی کی وجہ سے سالوں انصاف لیتے ہوئے بیت جاتے ہیں۔ اب کیا قانون ساز اداروں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ پیشہ ور مقدمہ باز کے برخلاف قانون بنائیں؟ کیا قانون ساز اس بات کا ادراک نہیں رکھتے کہ قانون کے مطابق جلد از جلد فیصلہ اور انصاف ممکن ہوسکے؟ کیا لاکھوں مقدمات سے نمٹانے، ججوں کے فیصلوں کا معیار اور اس کی جانچ پڑتال کے لیے ایک ادارے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا ایسا ضابطۂ دیوانی اور ضابطۂ فوجداری ممکن نہیں جس میں تمام سول اور فوجداری مقدمات کو یکجا کیا جاسکے؟کیا سیکڑوں قوانین میں ترمیمات کو یکجا نہیں کیا جاسکتا ہے؟ کیا عدالتِ عالیہ کے فیصلوں کی عوامی تشہیر کا انتظام ناممکنات میں سے ہے؟ کیا ایک دوسرے کے برخلاف فیصلہ جات کو من و عن قانونی حیثیت دی جانی چاہیے؟
اس حوالہ سے حکومت سے کچھ گذارشات ہیں، جن کے حوالہ سے قانون سازی وقت کی اشد ضرورت ہے۔
٭ حکومت پیشہ ور مقدمہ بازوں سے ہوشیار رہنے کے لیے قانون سازی عمل میں لائے، جس میں فریقِ مخالف سے ہرجانے، خرچہ اور جرمانے کے دفعات شامل ہوں۔
٭ تیز تر انصاف کی فراہمی کے لیے ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور جب مقدمہ ختم ہونے لگے، تو اس کے لیے مناسب حکمتِ عملی وضع کی جائے، تاکہ بعد میں جج حضرات قانونی عہدوں کے ساتھ ساتھ دیگر موافق ملکی اداروں میں کام کرنے کے اہل ہوں۔
٭ ایسا قانون بنایا جائے کہ ہر دو فریقین کو زبردستی راضی نامہ اور صلح نامہ پر مجبور نہیں کیا جاسکے۔ عدالتوں کو اس قسم کی کارروائی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
٭ قانون کے تابع تیز تر انصاف کی فراہمی کے لیے پولیس کے تفتیشی نظام کو بہتر بنانے کے اقدامات کیے جائیں اور مطلوبہ وسائل فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے۔
٭ تفتیش میں نقائص اور بدنیتی سے مقدمات رجسٹرڈ کرنے والے اہلکاروں کے ساتھ نبٹنے کیلئے قانون میں ترمیم کی جائے، ایسے افسران کی تنزلی کرکے ان کی ترقی روک لی جائے یا اس کو آخری آپشن کے طور پرمعطل کیا جائے۔
٭ عدالتوں کے ججزمقابلے کے امتحانات میں کامیاب ہوکر عدالتوں میں آتے ہیں۔ ججز کو مناسب قانونی ٹریننگ بھی ملتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدالتوں میں لوگ بروقت انصاف لینے کے لیے آتے ہیں، اس لیے قانون میں اس حد تک ترمیم ضروری ہے کہ پہلے تو مقدمات جلد ازجلد نمٹائے جاسکیں اور فیصلہ میں نقائص کی صورت میں عدالتِ عالیہ ایسے ججز کی تنخواہیں اور ترقی روک لے۔ اور مسلسل اس طرح کے فیصلہ جات کی وجہ سے اس کو فارغ کرنے کے لیے قانون بنائے۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔