پورے دن کی جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ کے بعد جب کمرے میں آیا، تو بستر پر دراز ہوتے ہی آنکھ لگ گئی۔ اگلی صبح دیر سے اٹھا۔ ویسے بھی ہمارے پاس دو تین دن فارغ تھے، تو ناشتے کے بعد میں باہر نکلا اور ٹہلتا ہوا کیکو کے سپر سٹور گیا، مگر کیکو وہاں نہیں تھی۔ میں نے سوچا وہ کہیں اندر گودام میں ہوگی، تو فیصلہ کیا کہ دوبارہ اس سے ملنے آجاؤں گا۔ دوپہر کو میں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ’’ماؤنٹ فوجی‘‘ جاؤں۔ میں چاہتا تھا کہ کیکو کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤں، اس لیے میں دوپہر ایک بار پھر کیکو کے سپر سٹور گیا، مگر وہ اس وقت بھی موجود نہیں تھی۔ اس لیے میں نے سٹور میں ایک دوسری ملازمہ سے کیکو کے بارے میں پوچھا۔ اس نے جواباً کہا کہ کیکو نے چھٹی کی ہے۔ چھٹی کا سن کر میرا دل بیٹھ سا گیا۔ کیوں کہ مَیں ماؤنٹ فوجی کا سفر کیکو کے ساتھ ہی کرنا چاہتا تھا، لیکن شائد قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا، اس لیے میں نے بوجھل قدموں کے ساتھ اکیلے جانے کا فیصلہ کیا۔
آپ جاپان میں ہوں اور ماؤنٹ فوجی نہیں گئے ہوں، تو آپ کا سفر نامکمل ہے۔ کیوں کہ یہ جاپان کے خوبصورت ترین جگہوں میں سے ایک ہے۔ فوجی پہاڑ، ٹوکیو کے مغرب میں تقریباً 135 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ٹوکیو سے یہاں کے لیے ٹرین، بسیں اور ٹیکسی کاریں جاتی ہیں۔ میں نے بس کا انتخاب کیا۔ کیوں کہ ٹیکسی کا خرچہ میری برداشت سے باہر تھا۔ ٹرین کا سفر تھوڑا لمبا بھی پڑتا تھا۔ اس لیے میں دو دن پہلے ’’شین جو کو‘‘ بس سٹیشن گیا اور وہاں سے دوطرفہ ٹکٹ خریدا۔ یک طرفہ ٹکٹ مجھے ایک ہزار سات سو جاپانی ین کا ملا۔
مقررہ تاریخ پر میں صبح سویرے ’’شین جوکو‘‘ گیا اور متعلقہ بس میں بیٹھ گیا۔ یہاں کی بسیں انتہائی آرام دہ ہوتی ہیں جس میں سواری کے لیے ٹائلٹ، موبائل چارج کرنے کی سہولت، مفت انٹرنیٹ،تکیے اور کمبل دستیاب ہوتے ہیں۔ ٹکٹ خریدتے وقت سواری کو کھڑکی والی نشست کا آپشن بھی دیا جاتا ہے۔ اس لیے میں نے دونو ں طرف سے کھڑکی والی نشستیں ہی چنی تھیں۔ کیوں کہ میں جاپان کے اس ریجن کے مناظر دیکھنا چاہتا تھا۔ میری قریبی نشست پر ایک جاپانی خاتون بیٹھ گئی اور جوں ہی بس روانہ ہوئی، خاتون کو جیسے گہری نیند نے آغوش میں لے لیا۔ میں بار بار اس کی طرف دیکھتا کہ سفر میں میرا ساتھ دینے وہ کب جاگے گی، مگر افسوس اس کو اور نہ اوپر والے کو ہی میری تنہائی پر رحم آیا اور خاتون تقریباً دو گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد ٹھیک آخری سٹاپ پر جاگ کر اُتری۔ جاپان ہماری سوچ سے بھی زیادہ ترقی کرچکا ہے۔ کیوں کہ آپ کو ڈھونڈنے سے بھی کوئی خراب چیز نظر نہیں آئے گی۔ ما سوائے یہاں لوگوں کی خاموشی اور افسردگی کے۔ بس سرسبز اوردلکش وادیوں سے گزرتی ہوئی ’’کاواگوچی‘‘ بس سٹیشن پر رُکی جو کہ آخری سٹاپ تھا۔ میں نیچے آیا اور ساتھ ہی سیاحوں کی معلومات کے مرکز گیا۔ پورے جاپان میں آپ کو ہر جگہ ایسے مراکز ملیں گے۔ اندر ہر طرف اس خوبصورت پہاڑی علاقے کے معلوماتی بروشرز اور نقشے پڑے تھے جو سیاحوں کے لیے مفت دستیاب تھے۔ میں ان نقشوں اور تصاویر کو دیکھ رہا تھا کہ ایک خوش مزاج خاتون نے مجھے خوش آمدید کہا۔ سفید پینٹ شرٹ اور کالے کوٹ میں ملبوس خاتون دیدہ زیب تھی۔ اس کا پہلا سوال مجھ سے میرے ملک کے بارے میں تھا، جس کا میں نے فوراً جواب دیا۔ خاتون خوش ہوئی اور کہا کہ وہ کیا خدمت کرسکتی ہے؟ جواباً میں نے ان سے کئی جگہوں کے بارے میں سوالات کیے۔ اس نے ایک نقشہ اٹھایا اور قلم سے ان جگہوں کو مارک کیا اور راستوں کی رہنمائی کی۔ میں سب سے پہلے کاواگوچی جھیل کے لیے روانہ ہوا، جو چند منٹوں کے فاصلے پر تھی۔ یہ بہت بڑی جھیل ہے جس کے چاروں طرف پہاڑ ہیں اور جھیل کے اردگر د پختہ سڑک بنائی گئی ہے۔
یہ سڑک جھیل کا لطف دوبالا کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے چھوٹے چھوٹے پہاڑی گاؤں کو منسلک کرتی ہے۔ یہ ’’ماؤنٹ فوجی‘‘ کی پانچ جھیلوں میں دوسری بڑی جھیل ہے، جہاں ہر وقت سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یہاں سے ماؤنٹ فوجی کے نظارے کے لیے بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور تصویریں اُتارتے ہیں۔ میرا بھی پہلا مقصد یہاں سے ماؤنٹ فوجی کی تصویر لینا تھا۔ فوجی ایریا میں سیاحوں کے لیے تین مختلف بسیں چلتی ہیں، ریڈ یعنی سرخ لائن، گرین یعنی سبز لائن اور بلیویعنی نیلی لائن۔ ریڈ لائن ’’کاواگوچی‘‘ جھیل کے اردگرد چلتی ہے جو ہر پانچ یا دس منٹ بعد سڑک پر نظر آتی ہے۔ میں نے یہاں پہلا گھنٹا جھیل کے ارد گرد ہوا خوری کرتے اس مقصد میں گزارا کہ مجھے فوجی پہاڑ مکمل طور پر صاف نظر آئے اور میں اس کی تصویر لے سکوں، مگر اس دن بادلوں نے ماؤنٹ فوجی سے نہ ہٹنے کی قسم کھائی تھی۔ ماؤنٹ فوجی کو دیکھنے کے لیے میں اکیلے یہاں نہیں تھا۔ میرے علاوہ بھی یہاں کافی تعداد میں سیاح میری طرح انتظار میں ٹہل رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ایک چینی دوشیزہ جھیل کے کنارے ایک بڑے پتھر پر بیٹھی ہے۔ اس طرح ایک تائیوانی لڑکی جو جھیل کے کنارے ٹہل رہی ہے، ادا جعفری کے اس شعر کے مصداق کہ
تم پاس نہیں ہو، تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں
ان لوگوں میں ایک جاپانی خاتون موبائل فون پر بار بار کسی سے پریشانی کی حالت میں بات کر رہی تھی۔ میں ان سب سے ملنا چاہتا تھا جو ماؤنٹ فوجی کی چوٹی کو اس سحر انگیز جھیل کے کنارے کھڑے تھے۔ شائد یہ تینوں لڑکیاں جلد از جلد اس دلفریب نظارے کو دور کسی اپنے کے ساتھ شیئر کرنا چاہتے تھے۔ جھیل میں سیاحوں سے بھری کشتیاں چلتی نظر آ رہی تھیں، تو کئی نوجوان پریمی جوڑے جھیل کنارے اپنی محبت بھری دنیا میں مگن تھے جب کہ کئی لوگ جھیل کنارے مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹا انتظار کرنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ بادل ہمارے درمیان مستقل طور پر ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اس لیے میں وہاں سے ساتھ والی سڑک پر آگیا اور ایک بس سٹاپ پر رُکا۔ تھوڑی دیر بعد سرخ رنگ کی ایک چھوٹی سی بس ہمارے قریب رُکی۔ جوں ہی میں دروازے سے اندر داخل ہوا، تو درمیانی عمر کے ڈرائیور نے جاپانی زبان میں مجھ سے کچھ پوچھا، مگر مجھے تو کچھ پتا نہیں تھا کہ میں کہاں جانے والا ہوں۔ اس لیے جلد ہی میں نے اسے کہا ’’فائنل سٹاپ‘‘ جس پر انہوں نے مجھے بس میں اندر جانے کا اشارہ کیا، یہ چھوٹی سی لال رنگ کی بس جو سیاحوں سے بھری پڑی تھی، جھیل کنارے چلتی گئی۔ مختلف سٹاپوں پر رُکتی اور پھر آگے بڑھتے آخری سٹاپ پر رُکی۔ اس جگہ کہ ’’اویشی پارک‘‘ کہتے ہیں جو ہر وقت سیاحوں سے کھچاکھچ بھری ہوتی ہے۔ اویشی پارک رنگ برنگے پھولوں، وسیع جھیل اور ماؤنٹ فوجی کے نظارے کے لیے جنت نظیر جگہ ہے۔ یہاں خوبصورت رنگ برنگے پھولوں کے بڑے باغات، سرسبز دالان اور نہایت سلیقے سے بنے ہوئے چند ہی ریسٹورنٹ ہیں۔ اس جنت نظیر جگہ کی خاص بات یہاں کی ترتیب ہے جسے انتہائی ذوق سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
ماؤنٹ فوجی، کاواگوچی جھیل اور پھر یہ رنگ برنگ پھولوں کی کیاریوں کے سنگ سرسبز دالان جمالیاتی حس کو ابھار کر آدمی پر ایک عجیب سی کیفیت طاری کردیتے ہیں۔ مَیں جاپانیوں کی اس نفاست اور بہترین ترتیب دی گئیں سیر سپاٹے کی جگہوں سے بہت متاثر ہوا۔ دفعتاً مجھے اپنا سوات یاد آیا جسے قدرت نے واقعی بے پناہ حسن سے نوازا ہے، مگر ہم نالائق عوام اورنااہل حکومتوں نے جنت نظیر وادی کو تباہ و برباد کرنے اور اس کی خوبصورت شکل کو بگاڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔یہاں مجھے شدت سے احساس ہوا کہ ہم واقعی بہت ناشکرے ہیں۔ (جاری ہے)
…………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔