خان لالہ کی یاد میں

یہ یکم نومبر 2015ء کی بات ہے جب صبح آٹھ بج کر پچاس منٹ پر عزیزی امجد علی سحابؔ کا ایس ایم ایس آیا کہ بزرگ سیاستدان افضل خان لالہ انتقال کرگئے اور شام ساڑھے چار بجے درشخیلہ میں اُن کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔ ’’خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں‘‘ کے مصداق مرحوم کی آخر کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے؟ میں نے اپنی یادداشتوں میں اُن کا ذکر کئی دفعہ کیا ہے۔ اس موقع پر بعض باتوں کو یاد کرنا مناسب سمجھتے ہوئے یہ چند سطور قلم بند کر رہا ہوں۔ مرحوم خان لالہ کے بارے میں بہت سے اہلِ قلم حضرات اور اہلِ بصیرت لکھیں گے جو مجھ سے یقیناً بہتر ہوں گے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب نیلام کیا جا رہا تھا، تو ایک بڑھیا بھی مٹھی بھر سوت لہرا لہرا کر بولی دے رہی تھی۔ کسی نے کہا: ’’بڑی بی! یہاں تو سونے چاندی کی بولی چل رہی ہے۔ تم کیا سوت لہرا رہی ہو؟‘‘ بڑھیا جواباً کہنے لگی کہ ’’مجھے معلوم ہے مگر صرف یوسف کے خریداروں میں شامل ہونا چاہتی ہوں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ سیاسی نظریات کے لحاظ سے میں خان لالہ سے قطبین کے فاصلے پر ہوں، مگر اُن کی شخصیت سے میری محبت کی اول وجہ وہ جذبہ ہے جو خان مرحوم کے دل میں اپنی قوم کے لیے تھا۔ مرحوم خان سے ہماری پہلی ملاقات جہانزیب کالج میں پولیٹیکل سائنس کے لکچر روم میں ہوئی۔ اُس کا پس منظر یہ ہے کہ جب ہمارے سیاسیات کے اُستاد سردار نوازش علی پاشا سی ایس پی کا امتحان پاس کرکے چلے گئے، تو کئی ہفتے ہم بغیر اُستاد کے رہ گئے۔ پتا نہیں خان لالہ نے خود پیشکش کی یا جناب والی صاحب نے اُن سے درخواست کی۔ وہ ہمیں پڑھانے پر آمادہ ہوئے۔ ساتھ ہی یہ شرط رکھی کہ وہ سرکار سے تنخواہ نہیں لیں گے۔ انہوں نے رہائشی بنگلہ بھی نہیں لیا اور منگورہ ہاسٹل کے انیکسی میں اپنے ملازم کے ساتھ رہنے لگے۔ وہ واحد شخص تھے جو شلوار قمیص میں کالج آتے تھے۔ باقی اسٹاف انگریزی لباس پہنتا تھا۔ یہ سلسلہ چند مہینے چلتا رہا۔ ایک صبح جب وہ کلاس میں آئے، تو رول کال کے بعد کہنے لگے: ’’میرے عزیزو! میں آج آپ لوگوں سے رخصت لینے آیا ہوں۔ میں آپ کو سیاسات پڑھا رہا تھا جو میرا سبجیکٹ اور آپ کی ضرورت ہے۔ اسی کلاس کا کوئی لڑکا والئی سوات کو شکایت کرگیا ہے کہ میں کلاس میں ریاست کے خلاف بولتا ہوں۔ میں نے آج تک ایک لفظ بھی اس بارے میں نہیں کہا ہے۔ چوں کہ تمہاری پڑھائی کا نقصان ہورہا تھا، تو میں نے رضاکارانہ طور پر پیشکش کردی۔ اب چوں کہ میرے بارے میں بدگمانی پیدا ہو رہی ہے، تو میں یہ بات بہتر سمجھتا ہوں کہ یہاں سے چلا جاؤں۔‘‘

مرحوم خان لالا جہانزیب کالج میں اس شرط پر پڑھاتے تھے کہ وہ تنخواہ نہیں لیں گے۔ (Photo: The Express Tribune)

ہم بہت اُداس ہوگئے۔ ساتھ ہی ان سے اس لڑکے کے بارے میں پوچھا مگر انہوں نے نام بتانے سے صاف انکار کردیا۔ اس دن ایک لڑکا کلاس سے غیر حاضر تھا۔ ہم فوراً سمجھ گئے کہ یہ کام اُس نے کیا ہوگا۔ اس لڑکے کا والد ایک مشہور شخص تھا اور جناب والی صاحب کے بہت قریب تھا۔ بہرحال خان لالا چلے گئے۔ اُس کے بعد کتنی خزانیں آئیں اور کتنی بہاریں گزر گئیں۔ غالباً دس سال بعد خان لالا سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ اس وقت وہ مفتی محمود کابینہ میں وزیرِ اطلاعات و زارعت تھے۔ وہ مارتونگ سے پیدل براستہ چغرزی بونیر تشریف لائے اور ڈگر ریسٹ ہاؤس میں تمام محکموں کے افسران کی میٹنگ بلائی۔ مجھ سے ہاتھ ملایا، تو فوراً پہچان گئے اور کہا: ’’جوان! تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ میں نے اپنی ملازمت کے بارے میں بتایا، تو فرمانے لگے کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تم میٹنگ میں میرے قریب بیٹھو۔ تمہارے افسر اگر کوئی غلط انفارمیشن دینے لگیں، تو تم مجھے اصل بات بتانا۔ اُسی میٹنگ کے دوران میں ایک نا خوشگوار واقعہ بھی ہوا۔ میں نے پہلی بار اُن کو غصہ میں دیکھا۔ وہ دھیمے مزاج کے شخص تھے۔ پھر جلد ہی اپنا غصہ کنٹرول کیا اور باقی دن خیریت سے گزر گیا۔ اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس ڈگر والی ملاقات کے تیس سال بعد جب کہ میرے چہرے پر سفید داڑھی تھی، ان سے عید کے روز برہ درشخیلہ میں ملاقات ہوئی، تو بھی انہوں نے مجھے پہچان لیا اور اسی پرانے انداز میں کہا: ’’جوان! کیسے ہو؟‘‘ میں نے کہا: ’’سر میری داڑھی تو آپ سے بھی زیادہ سفید ہوگئی ہے۔ اب جوانی کہاں؟‘‘ کھانے کے دوران میں مجھے پاس بٹھایا۔ کھانے کے بعد حجرے کے صحن میں ان کی اقتدا میں دوپہر کی نماز پڑھی۔ فرض رکعت کے بعد مجھے اپنی جائے نماز پر کھڑا کرکے خود پچھلی قطار میں سنت پڑھنے لگے۔

میں اُن کی سیاست کے بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا۔ میرے لیے وہ صرف ایک محترم اُستاد اور پختون روایات کے امین ہیں اور رہیں گے۔ وہ اپنی حیثیت اور خاندانی پس منظر کی مناسبت سے ایک مکمل روایتی خان تھے اور اسی کردار کو آخر تک نبھاتے رہے۔ ہمیں اس بلند مرتبہ خان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہئے۔ خدائے بزرگ و برتر ان کی قبر کو نور سے بھر دے، آمین۔

……………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔