زندگی جہدِ مسلسل کا دوسرا نام ہے۔ یہاں جو آرام کرتے ہیں، بہت کچھ کھوتے ہیں۔ اس زمینی گولے پر انسان کی آمد ہی ایک جنگ ہی کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔ شیطان کا انسان کے ساتھ پہلا معرکہ ہی تو تھا کہ آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا گیا۔ پھر سورج نے وہ دن بھی دیکھا جب اس دھرتی پر انسان نے تعمیر و تخریب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا جو اس دھرتی کے ختم ہونے تک قائم رہے گا۔ زندگی کی یہ جنگ ایک نظر نہ آسکنے والے جراثیم سے لے کر انسان تک میں جاری و ساری ہے۔
جراثیم بھی اپنی بقا کے لیے لڑ رہے ہیں اور ہاتھی بھی۔ یہاں تک کہ پودے بھی اپنی حفاظت کے لیے کیل کانٹوں سے لیس ہیں۔ "Survival of the fittest” زندگی کی بقا کا نعرہ بن چکا ہے، یعنی جو لڑ سکتا ہے اور مستعد ہے، باقی ہے اور جو غیر فعال اور غیر متحرک ہے، وہ مارا گیا، فنا ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ جن قوموں نے زیادہ مستعدی سے اپنے دماغ اور ہاتھوں سے کام لیا، وہ غالب رہیں اور ترقی کے زینے طے کرتی اُس مقام پر پہنچیں جہاں سے دنیا کی زمامِ کار اُن کے ہاتھوں میں آگئی۔
زندگی کی یہ جنگ ایک گھر سے شروع ہوکر ملکوں اور ایک فرد سے لے کر اجتماعی آبادی تک پھیلی ہوئی ہے۔ عام آدمی صبح ہوتے ہی زندگی کی گاڑی کو حرکت دینے چل پڑتا ہے۔ کوئی گاڑی چلا رہا ہے اور کوئی دکان، بس اپنے خاندان کے لیے کچھ کمانا ہے، محنت کرنی ہے۔ ہمیں پیدا کرنے والا جب خود یہ کہہ رہا ہو کہ ’’بے شک زندگی ایک تھکا دینے والی چیز ہے۔‘‘ تو لا محالہ ثابت ہوا کہ واقعی دنیا کی اس امتحان گاہ میں زندگی کے پیپر بہت مشکل ہیں، مگر ناممکن نہیں۔
برسبیل تذکرہ، پچھلے دنوں ہمارے گاؤں کے قریب چند کتوں نے کھیتوں میں ایک لڑکی جو دودھ لینے جارہی تھی، پر حملہ کرکے اسے بھنبھوڑتے ہوئے موت کی وادی میں اتار دیا۔ یہ خبر سن کر مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے یہ میری اپنی بیٹی کے ساتھ ہوا ہو۔ وہ بھی تو اپنے کام سے اِدھر اُدھر آتی جاتی ہے، اور مجھے زندگی کی تلخی اور اس کے اچانک رُخ بدلنے کے اس بھیانک روپ کا اندازہ ہوا۔ میں سوچنے لگا کہ اُس کے گھر میں اُس کے اپنوں پر تو قیامت ٹوٹ پڑی ہوگی۔ یہ تو ایک ادنیٰ سی مثال ہے۔ اس زمین پر تو ایسے ہزاروں واقعات آتے رہیں گے، مگر زندگی نے اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔ اور یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ دنیا آرام گاہ نہیں بلکہ ایک رزم گاہ ہے۔ یہاں ہر دم کسی نہ کسی لمحے خوف اور غم کا کیڑا ہماری خوشیوں کے تعاقب میں رہتا ہے۔ اس میدانِ جنگ میں جو لوگ آرام کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی ہمیشہ کا، تو یہ دیوانے کا خواب ہے۔ وقتی خوشیاں اور آرام تو الگ بات ہے، مگر اس دنیا کو جنت سمجھ کر اس کے لیے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈوں سے کام لینا اور اسے ہتھیانے کی سوچنا بس ایک دیوانے کا خواب ہی تو ہے۔
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

"Survival of the fittest” زندگی کی بقا کا نعرہ بن چکا ہے۔

کے مصداق ہمیں اس وقتی آرام گاہ میں اپنے آپ کو غموں کا عادی بنانا ہوگا، تو یہ غم ہمارے لیے بہت معمولی سی چیز بن جائیں گے۔ زندگی کے اس تھکا دینے والے سفر میں دو چیزیں ساتھ رکھنے والے ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔ ایک نماز اور دوسرا صبر اور ثابت قدمی۔ یہ وہ ہتھیار ہیں جن سے رزم گاہِ حیات میں کامیابی سے زندگی کی جنگ لڑی جاتی ہے۔ انسان جب نماز پڑھتا ہے، تو ہر لمحہ اُسے اللہ یاد رہتا ہے۔ اُس پر یہ احساس طاری رہتا ہے کہ کوئی ہے جو روح بن کر اُسے دیکھ رہا ہے۔ اور شہ رگ سے روح زیادہ قریب ہوتی ہے۔ وہ اکیلا نہیں اور وہ اپنے اعمال کا جواب دِہ ہے۔ اس لیے وہ بہت احتیاط سے زندگی گزارتا ہے۔ اب اُسے دوسروں کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہے، اُس کے ہاتھ پاؤں اور زبان سے اگر دوسرے کو تکلیف پہنچی، تو اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا اور جب تھکا دینے والی زندگی اچانک ایک بوجھ بن کر یا اپنا بھیانک روپ بدل کر اس پر حملہ آور ہوتی ہے، تو وہ صبر سے کام لیتا ہے اور جب یہ آندھی گزرتی ہے، تو وقت کا مرہم صبر کی پٹی سے مل کر ہر زخم کو مندمل کردیتا ہے۔
پچھلے دنوں حافظ اسرار احمد صاحب کی ایک تقریر سنتے ہوئے اُن کا ایک جملہ ذہن پر گویا نقش ہوکر رہ گیا اور وہ یہ کہ ’’جب ہمارا باپ ہمیں پکارتا ہے، تو ہم دوڑے چلے آتے ہیں۔ اگر کسی بات پر سزا بھی دے، تو سر جھکا دیتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ اس باپ کے ہم پر بے شمار احسانات ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں جو سزا والد محترم دے رہے ہیں، وہ بھی ہماری بہتری ہی کے لیے ہے، تو آخر وہ اللہ پاک جس کے احسانات کی کوئی حد نہیں، جو ماں کے پیٹ سے لے کر ہماری موت تک احسانات کا سلسلہ چلائے رکھتا ہے، کیا وہ ہستی اس قابل نہیں کہ ہمارے سر اُس کے آگے جھک جائیں اور زندگی اُس کی بندگی میں رچ بس جائے؟ یقیناً وہ اس قابل ہے اور اُس کے قریب رہ کر ہی زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ انسان اکیلا کچھ بھی نہیں۔”
آج یورپ نے ترقی کی جس دوڑ میں اپنے آپ کو منوا لیا ہے، اُس کا ہر دوسرا شہری جب رات کو سوتا ہے، تو شراب اور خواب آور گولیوں کا سہارا لے کر سوتا ہے۔ اُسے ہر لمحہ دہشت گردی اور اچانک کسی بیماری کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دولت کی فراوانی اور مادی سہولیات کے باوجود وہ اندر سے خوف زدہ اور قلبی سکون سے تہی دامن ہے۔ وہ موسیقی کے شور میں اپنے آپ کو ڈبو کر بھی اپنے اکیلے پن اور بے سکونی سے باہر نہیں نکل پا رہا۔ کیوں کہ وہ بے خدا اور راندۂ درگاہ ہیں۔ وہ اپنے پیدا کرنے والے کے احسانات کو جانتے تک نہیں اور یہی ان کی سزا ہے۔

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔