"ہم معذرت خواہ ہیں، بے شک آپ نے لکھا درست ہے مگر ہماری پالیسی آڑے آ رہی ہے کہ ہم یا تو آپ کے کالم کا عنوان تبدیل کریں گے اور اگر آپ اس تبدیلی کی اجازت نہ دیں، تو پھر ہم اس کالم کو شاملِ اشاعت نہیں کر سکتے۔”
لاہور کے علاقے مغل پورہ کی ننھی سُنبل کو ہوس کا نشانہ بنانے کے حوالے سے جب راقم نے ایک تحریر میں قلم کا حق ادا کرنا چاہا، تو تحریر کے عنوان کی وجہ سے اخبار نے اسے شائع کرنے سے انکار کر دیا۔ اُس تحریر کا عنوان ’’قوم کا ریپ‘‘ تھا۔ میرے استادِ محترم نے بھی مجھے کسی حد تک سمجھانے کی حتی الوسع کوشش کی کہ اس عنوان کے ساتھ کالم اخبار میں شائع ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اس وقت ان کی مانتے ہوئے میں نے عنوان تبدیل کر دیا تھا، مگر آج پھر میں اسی عنوان پہ لکھنے کی جسارت کر بیٹھا ہوں۔ اس وقت سنبل جیسی کلی کا مسلے جانا وجۂ تحریر بنا تھا اور آج زینب جیسے پھول کا زندگی کو الوداع کہہ دینا وجہ بنا ہے۔ کل بھی میں اپنے اخبار اور استادِ محترم سے یہی بحث کر رہا تھا کہ میں اگر یہ عنوان نہ رکھوں، تو کیا عنوان دوں اپنی تحریر کو؟ کیا سنبل نے زندگی کی ٹوٹی پھوٹی ڈور بندھے رہنے کے بعد کل کو ایک عورت نہیں بننا، اور قومیں کیا ماؤں کی گود سے تشکیل نہیں پاتیں؟ اور ایک معصوم بچی کا ریپ کیا پاکستان کے مستقبل کے ساتھ ریپ نہیں؟ کیا ایک عورت کی زندگی تباہ کرنا ایک پوری قوم کی زندگی تباہ کرنے کے مترادف نہیں ہے؟ کیا آج کی معصوم کلی نے کل کو زندگی کی دوڑ میں ایک مکمل عورت بن کے معاشرے کی تشکیل نہیں کرنی؟ اگر ان تمام سوالوں کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے، تو پھر تو میرے کالم کا عنوان یقینا بہت غلط ہے، مگر اگر ان سوالوں کے جواب ’’ہاں‘‘ میں ہیں، تو ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو کیا ایک خوفزدہ ماحول ہی دینا ہے؟
خوفزدہ ماحول سے اختلاف کیجیے۔ میرے لیے ننھی سنبل بھی پاکستان کا مستقبل تھی اور زینب بھی پاکستان کا مستقبل تھی۔ میرا دل کل بھی اسے قوم سے ریپ سمجھتا تھا۔ آج بھی زینب کے ساتھ اس درندگی کو ایک پوری قوم سے درندگی سمجھتا ہے۔ میرے لفظوں سے اختلاف کیجیے۔ آپ کا حق ہے۔ میرے لفظوں پہ تنقید کے نشتر برسائیے۔ یہ بھی آپ کا ازلی حق ہے، مگر میرے لفظوں کی روح سے اختلاف کیجیے اور پھر بتائیے کہ آپ کا دل کیا آپ کو ملامت نہیں کر رہا؟ ہم کتنی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ زینب قوم کی بیٹی ہے، مگر قوم کی بیٹیاں کسی وائرل پوسٹ کی وجہ سے انصاف کے حصول میں کیوں سرگرداں رہتی ہیں؟ ہم کیوں کسی وائرل پوسٹ، خبر یا تراشے کے منتظر رہتے ہیں اور درندگی پھیلانے والے درندے کیوں ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں؟
اگر زینب قوم کی بیٹی ہوتی، تو ہم لولی لنگڑی تاویلیں نہ دے رہے ہوتے۔ ہم تمام عہدے چھوڑ کے میدانِ عمل میں کود پڑتے کہ زینب کسی امین صاحب کی بیٹی نہیں ہے۔ میری اپنی بیٹی ہے اور اپنی بیٹیوں سے ریپ پہ کوئی ایسا باپ دکھا دیجیے، جو صرف بیانات سے کام چلا رہا ہو، جو احتجاجیوں پہ بھی گولیاں برسا رہا ہو؟ زینب کو اپنی بیٹی قرار دینے کی بجائے اُس مظلوم کے خون کا حساب اس طرح لینے کی تیاری کیجیے کہ درندہ صفت ظالم کو ایک لمحہ اپنے سراپے میں کپکپی محسوس ہو کہ اس نے کس قوم کی بیٹی پہ ہاتھ ڈالا ہے!
نہ جانے اب بھی میری اس تحریر کا عنوان قوم سے ریپ قرار پائے گا یا نہیں مگر مجھے زینب کے بھائی کے الفاظ رہ رہ کر یاد آ رہے ہیں کہ زینب پر حملے کو پاکستان پر حملہ سمجھیں۔ سمجھیں کہ پاکستان پر حملہ ہوا ہے، اور ایسا بے جا بھی نہیں ہے۔ کل کو اس ننھی کلی نے ہی ایک ماں بننا تھا۔ ایسی ماں جس کی کوکھ سے اس قوم کے مستقبل نے جنم لینا تھا، لیکن پھر ایک احساس دل میں ابھرتا ہے کہ اچھا ہوا اس بے حس معاشرے میں زینب اب زندہ نہیں رہی کہ اس معاشرے میں اس درندگی کے بعد زندہ رہنا بھی اس کے لیے کسی عذاب سے کم نہ ہوتا۔
ایک محترم لکھاری اپنا رشتہ براہِ راست ایک ایسے ہی واقعے کا شکار ہونے والی ایک بچی سے بتاتے ہیں کہ جو زندہ تو ہے، مگر اس کی چیخیں اچانک آسمان کو چھونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اور وہ ایسی تنہائی کا شکار ہو چکی ہے کہ وہ کسی بھی صورت اس سے نکلنے کو تیار نہیں ہے۔
اخبارات بھرے پڑے ہیں مذمتی بیانات سے، زینب کی تصاویر کو وائرل کر کے اپنی ریٹنگ بڑھائی جا رہی ہے۔ اس کے جنازے کی تصاویر کو پھیلا کر اپنے مجلوں کی سرکولیشن میں اضافہ کیا جا رہا ہے، مگر کوئی نہیں جانتا کہ زینب کی ماں سے جب اپنی ریٹنگ کے لیے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ تو اس پہ کیا گزرتی ہو گی! اس کا باپ جب اپنی بیٹی کی قبر سے لپٹ کے روتا ہوگا، تو اس کا بس نہیں چلتا ہو گا کہ بیٹی کے پاس پہنچ جائے۔ طویل عرصے بعد قابل اشاعت ٹھہرے یا نہ ٹھہرے مگر کہنا ہے کہ زینب کے ساتھ زیادتی پوری قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ زینب کے ساتھ ریپ پوری قوم کے ساتھ ریپ ہے۔ زینب کا لاشا کچرے کے ڈھیر پہ نہیں پوری قوم کا لاشا کچرے کے ڈھیر پہ لا پھینکا گیا ہے۔ زینب کے معصوم چہرے کو ہوس کا نشانہ نہیں بنایا گیا، پوری قوم کے چہرے کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کیوں کہ یہ زینب نہیں تھی، یہ پاکستان کا مستقبل تھی اور یہ پاکستان کے مستقبل سے دردندگی کا کھیل کھیلا گیا ہے۔ زندہ قومیں اپنے مستقل کے ساتھ ایسی درندگی دکھانے والوں کی گردن میں پھندا ڈالنے میں زیادہ وقت صرف نہیں کرتیں۔ وہ دنیا کو دکھاتی ہیں کہ ہم ان کا کیا حشر کرتے ہیں، جو ہمارے مستقبل کے ساتھ کھیلتے ہیں۔
اب یہ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں یا مردہ قوم!
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔