قصور……ڈارک ویب کا مرکز

جس ملک کے حکمران، دوست اسلامی ممالک کے شیوخ کو قوم کی بیٹیاں عیاشی کے لئے پیش کرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہ کرتے ہوں اور جس قوم کے حکمران دغا باز، خائن، فریبی، حرام خور، قاتل، شرابی، زانی اور مالی و اخلاقی کرپٹ ہوں، اس ملک کی زینب اور عاصمہ جیسی بیٹیوں کے ساتھ جنسی درندگی کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ فحاشی کو فروغ دینے والی این جی اوز، انسانی حقوق کے نام پر بنی ہوئی شیطانی قوتوں کے حقوق کی پاسداری کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی ’’آنٹیوں‘‘ کو کیا زینب اور عاصمہ پر جنسی تشدد اور ان کا بہیمانہ قتل نظر نہیں آ رہا؟ جب بھی کہیں ظلم ہو، وہاں حقوقِ نسواں کا راپ الاگنے والوں اور دوسری این جی اوز کو سانپ سونگھ جاتا ہے جبکہ مجرموں کو بچانے اور تحفظ فراہم کرنے میں یہ تنظیمیں اپنے مغربی آقاؤں کے اشارے پرحکومتوں پر اثر انداز ضرور ہوجایا کرتی ہیں۔

قصور واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری ہی ہے۔ خدشہ ہے کہ کہیں ملک کا گوشہ گوشہ ’’قصور‘‘ نہ بن جائے۔ والدین پریشان ہیں اور بیٹیاں سہمی ہوئی ہیں۔ دل مغموم ہیں، آنکھیں اشک بار اور عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، مگر حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اس سنجیدہ مسئلہ کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ جس طرح اگست 2015ء میں اسی قصور کے نواحی گاؤں ’’حسین والا‘‘ میں تین سو کے قریب بچوں کے ساتھ جنسی بدفعلی کا ویڈیو سکینڈل منظرِ عام پر آیا ہوا تھا۔ جسے بدقسمتی سے جائیداد کا تنازعہ قرار دے کر حکمران جماعت نے چشم پوشی اختیار کی تھی۔ بچوں نے جنسی تشدد میں ملوث افراد کو پہچان لیا تھا جنہیں بعد ازاں پولیس نے ’’ن لیگی‘‘ ایم پی اے ملک احمد سعید کے ایما پر رہا کردیا تھا۔ ملک احمد سعید کو قصور سانحہ میں ملوث بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ تین سو خاندانوں اور ان کے بچوں کی زندگیوں پر اس سانحہ کی وجہ سے جو منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، وہ ایک الگ ایشو ہے۔

قصور میں زینب کے جنسی تشدد اور قتل کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ پوری قوم ذلیل او  رسوا ہوکر رہ گئی ہے۔ غیر ملکی دوست جب ہم سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا وہاں قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے جو شہریوں کے مال، جان اور عزتوں کا نگہبان ہو؟ تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں، مگر ایک ہمارے ملک کے بے شرم حکمران ہیں جنہیں ملک و قوم کی عزت اور وقار کی کوئی پروا نہیں ہے۔ البتہ ان کی عزتوں کے سوداگر ضرور ہیں۔ زینب کے جنسی تشدد اور قتل کا واقعہ 2015ء کے سانحۂ قصور کا تسلسل ہے۔ اگر اُس وقت قصور سانحہ میں ملوث ملزمان کو نشانِ عبرت بنایا جاچکا ہوتا، تو آج نوبت بارہ بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اور بے دردی سے قتل کرنے تک نہ پہنچتی۔

زینب، دوسری طرف سی سی ٹی وی فوٹیج میں مبینہ ملزم بھی دکھائی دے رہا ہے (Photo: Neo Tv)

اگر ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی اور عدل و انصاف کا سستا اور فوری نظام رائج ہوتا، اور اگر عدالتیں مجرموں کو بری نہ کرتیں، تو آج پوری قوم کا سر شرم سے جھکا ہوا نہ ہوتا۔ کائنات بتول جسے درندگی کے بعد مردہ سمجھ کر کچرے کے ڈھیر میں پھینکا گیا تھا، آج زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے بلکہ حقیقتاً زندہ لاش ہے۔ جس کرب سے اس کا خاندان گزر رہا ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اللہ اسے کامل تندرستی عنایت فرمائے، آمین۔ یہ حاکمانِ وقت کی بے حسی کا نتیجہ ہے اور کچھ نہیں۔
بروقت اور سخت سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوچکا ہے۔ کوئی محلہ، دکان، مکان، سکول، مدرسہ، کالج اور یونیورسٹی محفوظ نہیں ہے۔ ہرسو جنسی وحشی درندوں کا خوف پایا جاتا ہے۔
زینب تشدد کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ مردان اور نوشہرہ میں بھی دو بچیوں عاصمہ اور مدیحہ کو جنسی درندوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ قصور کی آگ خیبر پختونخواہ تک بھی پہنچ گئی۔ اس آگ کو مزید پھیلنے سے روکنا ہوگا۔ خیبرپختون خوا حکومت کم ازکم اس نیک کام میں تاخیر نہ کرے اور مجرموں کو جلد از جلد گرفتار کرکے کیفرِ کردار تک پہنچائے۔ بصورت دیگر یہ اموات ان کے گلے کی ہڈی بن کر رہیں گی اور قوم انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ فیصل آباد کے مدرسہ میں آٹھ سالہ عمران کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہو یا لوئر دیر کے چار سالہ بچے محمد عباس کے سات بدفعلی، لاہور کے سیرپور میں کزنز کا اپنی چچا زاد آٹھ سالہ یتیم بچی کے ساتھ جنسی تشدد اور قتل کا واقعہ ہو یا لوند خوڑ کی چھے سالہ بچی شب نور کے ساتھ جنسی درندگی، کراچی میں جنسی بربریت کے بعد اذیت دے کر قتل کی گئی طوبیٰ ہو یا ڈی آئی خان میں سرِعام ننگی گھمائی جانے والی قوم کی بیٹی، یا پھر تازہ ترین واقعہ تھانہ سوہا کی حدود میں آٹھ سالہ ثمرہ کے ساتھ جنسی زیادتی ہو۔ بیٹی بلوچستان کی ہو، گلگت بلتستان کی ہو یا کشمیر کی، دکھ درد اور غم سب کا یکساں ہے۔ خدارا قوم کی بیٹیوں کی عزتوں پر سیاست مت کیجئے بلکہ ان کے مجرموں کو سر عام پھانسی پر لٹکا کر قوم کے زخموں پر مرہم رکھیں اور بچوں کو تحفظ فراہم کریں۔

چار جنوری کو زینب اغوا ہوئی اور چھے جنوری کو قتل کردی گئی، مگر تاحال پولیس مجرموں کو پکڑنے میں ناکام ہے۔ دراصل پولیس مجرموں کو بچانا چاہتی ہے۔ ورنہ ان کو پکڑنا شاید اتنا مشکل نہ ہوتا۔ ایک تو علاقے کی پولیس اور 2015ء کے سانحہ میں پکڑے گئے ملزموں بشمول ’’ن‘‘ لیگی ایم پی اے ملک احمد سعید کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ ان کا بھی ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے، کیوں کہ قصور شہر ڈیپ ویب یا ڈارک ویب سائٹ کے مافیا کا مرکز بن چکا ہے۔ زینب کسی ایک شخص کی جنسی تسکین کا شکار نہیں ہوئی ہے بلکہ قصور میں ڈیپ/ ڈارک ویب سایٹ کے مافیا نے اس پر جنسی تشدد کی براہِ راست ویڈیوز چلائی ہوں گی۔ ایسی ویڈیوز براہِ راست دکھائی جاتی ہیں اور اسی وقت اس کی آن لائن ادائیگی کی جاتی ہے۔ کون کس کو ادائیگی کرتا ہے؟ یہ راز رہتا ہے۔

ڈیپ یا ڈارک ویب سایٹ تک رسائی عام سرچنگ انجن سے ممکن ہی نہیں ہے۔ ڈارک ویب سایٹ کے لئے ایک خاص سوفٹ ویئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنسی ویڈیوز کے کاروبار اور صنعت میں ڈارک ویب سایٹ سب سے زیادہ خطرناک ویب سایٹ ہے۔جہاں چار بلین سے زائد پیجز ہیں اور جہاں مختلف کٹیگریز کی فحش ویڈیوز دستیاب ہوتی ہیں۔ یہاں ہر قسم کے ڈرگز، اسلحہ کی خرید و فروخت، ہر قسم غیر قانونی دھندے، قتل و غارت گری کی تنظیمیں، جعلی کاغذات اور پاسپورٹ وغیرہ کا کاروبار ہوتا ہے۔ یہی سے آن لائن بینکنگ کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔ ان کے ممبرز کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے۔ یہ جو بھی کرتے ہیں، اسے راز، خفیہ اور چھپا ہوا سمجھا جاتا ہے۔ یہاں صارفین اور کاروبار، سب کچھ عددی ہندسوں کی شکل میں ہوتا ہے اور کسی نام کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ چائلڈ پورن ویڈیوز کی کئی اقسام میں اب تک کی یہ سب سے زیادہ گھٹیا اور خطرناک ترین صنعت ’’پیڈوفیلیا‘‘ فحش ویڈیوز کی ہے۔

ڈیپ یا ڈارک ویب سایٹ تک رسائی عام سرچنگ انجن سے ممکن ہی نہیں ہے۔ (Photo: Security Affairs)

ڈارک ویب سائٹ میں ایک ہدایت کار باقاعدہ براہِ راست ہدایات بھی دیتا ہے کہ کس طرح بچے یا بچی کو ہوس کا نشانہ بنانا ہے۔ حتیٰ کہ کئی مواقع پر مختلف اعضا کو جلانے، کاٹنے اور عضوئے تناسل کو کاٹ کر باربی کیو بناکر کھانے کو بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کسی کو قتل کرنے کا ٹاسک تک بھی دیا جاتا ہے۔

ڈارک ویب سائٹ کے گندے اور غلیظ ترین دھندے میں کئی بڑے بڑے ستارے، سیاستدان اور افسران تک شامل ہوتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑے مافیا پر مشتمل گینگ ہے جو ہر طرح کے غیرقانونی اور بھیانک دھندوں میں ملوث ہے۔ بدقسمتی سے مملکتِ خداداد پاکستان پر ایسے ہی مافیاز کی یلغار ہے، جس کا گڑھ اور مرکز شاید قصور شہر ہے۔

ڈارک ویب سائٹ کے گندے اور غلیظ ترین دھندے میں کئی بڑے بڑے ستارے، سیاستدان اور افسران تک شامل ہوتے ہیں۔ (Photo: NBC News)

قصور شہر کی پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج میں واضح نظر آنے والے ملزم کے خاکہ کو قصداً غلط بنا کر شکوک و شبہات کو تقویت بخشی ہے بلکہ خاکہ میں نظر آنے والا پنجاب کا متنازعہ وزیرِ قانون جس پر خود کئیوں کے قتل کا الزام ہے اور جس کے ڈیرے پر مجرموں کا آنا جانا معمول کی بات ہے، کا شبہ ہوتا ہے۔ اب یہ کوئی خاکہ بنانے والے سے ہی پوچھے کہ اس نے خاکہ میں رانا ثناء اللہ کو ظاہر کرنے کی یہ حرکت کیوں کی ہے؟ قصور پولیس کی جانب سے سیاسی شخصیات اور سابقہ ملزمان کو شامل تفتیش کئے بغیر اس دھندے سے وابستہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن نظر آرہا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ قصور واقعہ پر سینٹ میں بنی ہوئی تحقیقاتی کمیٹی کیا رنگ لاتی ہے؟

حکومت ملک کے مایہ ناز کالم نگار اور اینکر پرسن جاوید چوہدری کی آئی ٹی کمپنی سے ضرور استفادہ کرے، جو یورپی ممالک کو مختلف ایپس، پیچز اور ویب سائٹس بنا کر دیتی ہے۔ جاوید چوہدری نے یورپ میں امبر الرٹ سسٹم کی طرح ایک الرٹ سسٹم حکومتِ پاکستان کو مفت فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ گر وفاق اس معاملہ میں ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے، تو صوبائی حکومتیں اس الرٹ سسٹم سے فائدہ حاصل کریں اور کوئی یہ خدمات حاصل کرے نہ کرے، خیبر پختون خوا کی حکومت ضرور اس الرٹ سسٹم کو پورے صوبے کے لئے مہیا کرے۔

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔