گوجر تاریخ کے آئینہ میں

ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن، کشمیر اور افغانستان وغیرہ میں اونچے اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں اور شمالی پنجاب اور ہندوستان کے سرسبز و شاداب میدانوں میں مال مویشی چرانے والے زراعت پیشہ لوگ جو نہایت سادہ زندگی گذارتے ہیں، گوجر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے اکثر مرد حضرات صحت مند اور بلند قامت ہیں جب کہ ان کی عورتیں تنومند اور شجاع ہیں۔ یہ لوگ تہذیب و تمدن اور زبان کے اعتبار سے ایک قوم ہیں، لیکن بعض لغتوں نے اُن کا پیشہ ہی اُن کی قومی پہچان گردانا ہے۔ مثلاً اُردو لغت میں اس کو گائیں بھینسیں پالنے والی ایک قوم، گوالا اور چرواہا کہا ہے، تو اِلہ آباد کے پبلشر رام نرائن لال نے "دی سٹوڈنٹس پریکٹیکل ڈکشنری 1935ء” میں "Gujar” کی تعریف یوں کی ہے:

                                 "۔A cow herd, dairyman, engaged in agriculture and cattle rearing”
ان کے علاوہ متعدد مصنف نہ صرف ان کا پیشہ زراعت، مال مویشی پالنا اور دودھ فروشی بتاتے ہیں بلکہ اُن کی زبان گوجری کی بھی تائید اور تصدیق کرتے ہیں۔ البتہ فیروزالغات میں گوجر کو برصغیر کی ایک قدیم زمیندار قوم لکھا گیا ہے۔ اس طرح گوجر کی وجۂ تسمیہـــ مختلف لکھاریوں نے اپنے اپنے انداز میں بیان کی ہے، لیکن تاریخِ گجرات میں بتایا گیا ہے کہ اِن کے شہزادے بڑے بہادر اور شجاع تھے۔ خصوصاً فنِ جنگ کے گرز پہلوان تھے۔ اس لیے پہلے گرزی کے نام سے موسوم ہوئے۔ گرزی کا لفظ گرجی بنا۔ گرجی سے گرجر اور گرجر سے گوجر مشہور ہوگیا۔ اگر چہ ’’جہان گیر اردو لغت‘‘ کے حوالے سے گوجر ہندی گجرات سے منسوب راجپوتوں کی ایک ذات یا ان کا کوئی فرد ہے، لیکن میری نظر میں یہ بات حقیقت سے قریب تر معلوم نہیں ہوتی۔ یہ ایک غلط فہمی ہے جو شاید مانک پور پٹیالہ کے چودھری علی محمد خان کی وجہ سے قائم ہوئی ہے۔ وہ اپنی کتاب: ’’راجپوت گوتیں‘‘ میں مشرقی میدانوں کی راجپوت گوتوں کا ذکر کرتا ہوا اُن میں ایک ذات بڈ گوجر بھی لکھتا ہے، لیکن اُس کتاب سے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ گوجر اور گوجربڈ کیسے ہوگیا؟ بہر حال یہ کوئی عرف یا ال معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے بہت ساری قومیں ایک دوسرے میں ضم ہوجاتی ہیں۔ خود گوجر کو لیجیے۔ صوبہ ممبئی کے علاقہ گجرات کے اصلی گوجروں سے متعلق مصنف محمد الدین فوق کہتے ہیں: ’’یہاں کے گوجر ہندو قوموں میں خون کے میل ملاپ سے اپنی علیحدگی کو ابلکل زائل کر بیٹھے ہیں۔ ظاہر ہے دیگر قوموں کے افراد بھی ان میں شامل ہوچکے ہیں، جس کی تفصیل میں جانے کی بجائے ان کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالتے ہیں۔بر صغیر پاک وہند کی ایک اہم قوم گوجر کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے تمدن و معاشرت اس کے رسم و رواج اور اس کی بودو باش پر اکثر اہلِ قلم حضرات نے خامہ فرسائی کی ہے۔ مثلاً مسٹر ڈی آر بھندر کار نے گوجروں کی اصلیت اور ان کی بتدریج وسعت کی ٹوہ لگائی ہے۔ اس کی تحقیق آشکارا کرتی ہے کہ یہ قوم نہ صرف بہت ہی پرانے وقتوں کی ہے بلکہ اس کے افراد وسط ایشیا کے جنوبی حصہ کے علاوہ ایشیا اور یورپ کے ملحقہ ساحل پر بھی آباد تھے۔‘‘

گوجر کمیونٹی کی ایک نایاب تصویر (Photo: sikh heritage)

اس کا مضمون مزید واضح کرتا ہے کہ ’’گورجستان واقع ایشیا کوچک کسی زمانے میں گوجر قوم ہی کے لوگوں سے آباد تھا۔‘‘
اسی طرح ’’تاریخ گجرات‘‘ میں شیخ جمال گوجر اور حافظ عبدالحق سیالکوٹی کہتے ہیں:’’ ان کی سکونت و وطنیت کے ساتھ ساتھ ان کا مذہب بھی تبدیل ہوتا رہا۔ شام میں حضرت اسحاق علیہ السلام کے مذہب پر تھے، تو یونان میں آکر عیسائی ہوگئے۔ ہندوستان آئے، تو ہندومت کے پیرو ہوگئے۔ مسلمانوں کے زمانے میں ان کے بہت قبائل گجرات کا ٹھیاواڑ صوفیائے کرام کی تبلیغ و صحبت کی بدولت مسلمان ہوگئے۔‘‘

لیکن گجرات دکن، دہلی کے نواحات اور صوبہ یو پی(اتر پردیش) کے اکثر گوجر ابھی تک قدیم ہندومت پر قائم ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں ان کے اکثر خانہ بدوش ادھر ادھر پھرا کرتے تھے اور اکے دُکے پر حملے بھی کردیا کرتے تھے۔ اکبر بادشاہ نے دہلی کے قریب اُن کے نام پر گجرات شہر آباد کر کے اُن کو اجتماعی زندگی بسر کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ ساتھ ہی ان کی دست برد سے مسافروں اور راہ گزروں کو بھی آرام ملا۔ شایددرجہ ذیل کہاوت اُن ہندو خانہ بدوشوں سے متعلق ہے: ’’رانگھڑ گوجر دو، کتا بلی دو، یہ چاروں نہ ہوں، تو کھلے کواڑوں سو۔‘‘
ان کی ہندوستان میں آمد کی تاریخ معلوم نہیں ہے۔ تاہم ایلن ویارو، انعام الرحیم اور اولف کیرو کے ان بیانات سے اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ اول الذکر دو مصنفین ’’سوات سماجی جغرافیہ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’پانچویں صدی عیسوی کے آخر میں Hephtalite نے گندھارا پر چڑھائی کی اور بعد ازاں تمام شمالی ہندوستان پر اس مہم میں کچھ اور قبائل کا گروپ بھی بطورِ منصب دار یا خدمت گار ان کے ہمراہ رہا، اُس کا نام Gurjaras تھا۔‘‘ اس طرح اولف کیرو کا بیان ہے:’’ہن دور کے اختتام پر ایک بڑی آبادی نے موجودہ پاکستانی علاقوں سے شمالی ہندوستان ہجرت کی، بعض اپنے آپ کو ہن کہتے تھے۔ بعض اپنے آپ کو Gurjaras (گوجر) اور جاٹ کہتے تھے۔ زیادہ تر کاشت کار لوگ گوجر کے نام سے جانے جاتے تھے۔‘‘

گجر سمراٹ مہیر بھوج (photo: beinggujjar.com)

ان حوالوں کو دیکھ کر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ جنوبی ہندوستان میں ان کی نقل مکانی چھٹی صدی عیسوی سے دسویں صدی عیسوی تک جاری تھی۔ جہاں انہوں نے ہندومت اختیار کرلیا تھا۔ جس سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ شمال مغربی پہاڑوں سے آتے ہی یہ قوم پنجاب، اضلاع متحدہ راجپوتانہ، وسط ہند بنگال، مدراس او ر ممبئی وغیرہ ہندوستان کے تمام علاقوں میں پھیل گئی۔ جہاں کہیں یہ قوم گئی ہے، اپنی قومی شناخت چھوڑ آئی ہے۔ مثلاً کالہ گجراں، گوجرہ، گجرات، گوجر خان اور گجرانوالہ وغیرہ نام گوجر باشندگان ہی سے مشتق ہیں۔ ہر چند ان علاقوں میں گوجر صرف زراعتی زندگی ہی بسر کرتے ہیں، تاہم یہ مقامات ان کی بڑی مستحکم پناہ گاہیں رہ چکے ہیں۔ مزید براں کشمیر، خیبرپختونخوا اور افغانستان میں بھی ایسے گاؤں اور علاقے موجود ہیں جو گوجر قوم سے منسوب ہیں۔ لگتا ہے سفید ہن کی شکست کے بعد جن گوجروں نے مشرق کی طرف ہجر ت نہیں کی تھی، ان کی غالب اکثریت نے ترک شاہی اور ہندوشاہی کے زمانے میں واپس شمالی علاقوں میں آنے کی حامی بھری۔ خاص کر ہندوشاہی دور میں جب وادیوں کی زرخیز زمینوں پر آباد مالکوں کا اپنا ایک وفاق تھا جبکہ پہاڑی لوگوں کی بھی اپنی قبائلی تنظیمیں تھیں۔ اس لیے گوجروں کی زراعت اور مال مویشیوں سے وابستگی یہاں ان کی موجودگی کی دلالت کرتی ہے۔ مزید برآں اگر بعض تاریخ دانوں کی رو سے راجہ گیرا کو گوجر مانا جائے، تو یہ بات اس دلیل پر مہر ثبت ہوگی کہ گوجر گندھارا کے قدیم باشندے ہیں۔ مصنف خیرالحکیم حکیم زئی ’’د بر سوات تاریخ‘‘ میں اور ایلن ویارو اور انعام الرحیم ’’سوات سماجی جغرافیہ‘‘ میں ایک رائے پر متفق ہیں۔ دونوں ان کو کوہستانیوں کی طرح اس وطن کے اصلی باشندے کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں پر ملنے والے پرانے کتبوں کی لکھائی سے گوجروں کی نشاندہی ہوسکتی ہے، جن سے بات عیاں ہوتی ہے کہ گوجری اور گوجر قوم قدیم زمانے سے یہاں آباد تھی۔ لیکن بقول ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی طبقاتی نظام نے گوجر قوم کو نہ صرف ملکیت سے محروم کیا بلکہ ان کی سیاسی و سماجی حیثیت بھی کم کی، جو فقط مال مویشی پالنے اور زراعت تک محدود ہوگئی۔ بہرحال موجودہ زمانے میں یہ قوم آسودہ حال ہونے کے ساتھ ساتھ بیدار بھی ہوئی ہے۔ ایک طرف اگر ان میں گوجر تنظیم کے سرکردہ رہنما پیدا ہورہے ہیں، تو دوسری طرف ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات منظرِ عام پر آ رہے ہیں، جن میں اکثر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائض ہیں۔ ضلع گجرات میں تو گوجر قوم بہت مرفہ الحال ہے۔ اس میں کئی سرکاری خطاب یافتہ اور ذی حیثیت بزرگ ہیں۔ ان کے علاوہ لفظ پاکستان کے خالق چودھری رحمت علی گوجر جیسی تاریخی شخصیت کی طرح کئی سیاسی وسماجی شخصیات کی وابستگی گوجر قوم کے ساتھ ہے۔
الغرض مؤرخ محمد الدین فوق تاریخِ کشمیر میں لکھتے ہیں:’’ کشمیر میں صرف دو ہی قومیں ہیں، جنہوں نے زمانہ قدیم سے یہاں آکر اپنے تمدن اور اپنی زبان کو محفوظ رکھا ہے۔ ایک گوجر قوم جو صدیوں سے یہاں آباد ہے، دوسری سکھ۔‘‘
اس طرح ملاکنڈ ڈویژن کے متعدد گوتیں مثلاً پامبڑا خیل، کھٹان خیل، چوہان، کھسان، چیچی، مطلاخیل اور بجاڑ وغیرہ گوجری بول سکتے ہیں، تاہم یہ لوگ پشتو بھی اہل زبان کی طرح بولتے ہیں۔

…………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔