جاپانی اماں سے ملاقات کے بعد شام ہوچکی تھی جس کے بعد ہم ’’اواسے‘‘ نامی قصبہ کے لئے روانہ ہوئے جو کہ ’’مے اے پرفیکچر‘‘ کا دیہی اور پہاڑی علاقہ ہے۔ ہم رات گزارنے ’’ہوٹل ویورا‘‘ میں ٹھہرے جو بحرِاوقیانوس کے کنارے قائم ہے۔ کہنے کو تو یہ دیہی علاقہ ہے، مگر یہاں کی سہولتیں اور انفراسٹرکچر کسی جدید شہر سے کم نہیں ہیں۔ ویسے تو جاپان کا ہر علاقہ نہایت خاموش اور پُرسکون ہے، مگر یہاں کے سکون میں ایک عجیب سی طمانیت ہے۔ یہاں کی آبادی میں مجھے جوان لوگ بہت کم نظر آئے۔ میں نے جتنے لوگ بھی دیکھے، وہ یا تو درمیانی عمر کے تھے یا عمر رسیدہ تھے۔ ہمارے ہوٹل کا تمام عملہ بشمول ویٹر سٹاف درمیانی عمر پر مشتمل تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہاں جوانوں اور بچوں کی قلت ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میری ملاقات کسی جوان یا پھر بچے سے نہیں ہوئی ہو۔ یہاں سمندر اور پہاڑوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے اور سبھی پہاڑ گھنے جنگلات کا لباس زیب تن کئے کھڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ ماہی گیری اور جنگلات کے پیشوں سے وابستہ ہیں۔ ہم نے یہاں رات گزاری۔ صبح سویرے مَیں نیچے اُترا، تاکہ بحراوقیانوس کا نظارہ کر سکوں۔ ہوٹل کے سامنے اور بحر اوقیانوس کے درمیان سڑک اور ایک پل تھا۔ میں پل پر کھڑا ہوا اور سمندر کا نظارا کرنے لگا۔ صبح سویرے ساحل پر جہاز لنگر انداز ہو رہے تھے۔ کچھ لوگ کام میں مصروف دکھائی دیے۔ میں وہاں کھڑا ہی تھا کہ جاپانی فیلو ’’آیاکو ‘‘ میرے پاس آئی اور ہم نے سمندر کے کنارے خوبصورت نظاروں کے بارے میں بات کی۔ ہم نے موبائل سے کچھ تصاویراور ویڈیوز بنائیں۔ہم دونوں نے یہاں کی خوبصورتی کو سلفیوں میں بھی اتارا، اس کے بعد ناشتہ کرنے کے لئے ہوٹل گئے۔ ہوٹل سے نکل کر ہم بس میں بیٹھ گئے اور ’’ہیامی‘‘ جنگل کے لئے روانہ ہوئے۔ اصل میں ہیامی جنگل کا مالک ’’ہیامی تورو‘‘ نامی شخص ہے جو اپنے جنگل کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ جاپان میں ذاتی جنگل بھی ہوتے ہیں جس کا انتظام لوگ خود ہی چلاتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے ملک میں لوگ ذاتی یعنی پرائیویٹ سکول چلاتے ہیں۔ ہیامی جنگل ماحولیاتی پائیداری، حیاتی نظام میں تنوع، جنگلات کے تحفظ اور ثقافتی منظر نامے کے لحاظ سے بہترین انتظام کا ایک نمونہ ہے۔ جاپان میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ یہاں درختوں کی بے دریغ کٹائی سے جنگلات کا صفایا ہوگیا تھا۔ اُس وقت یہاں کی تقریباً تمام عمارتیں، شرائین، قلعے، رہائشی مکانات و محلات لکڑی سے ہی بنتے تھے جس کے لئے حکمرانوں کے حکم کے مطابق جنگلات کا صفایا کیا گیا۔ 1670ء میں جب جاپان کی آبادی تقریباً تیس ملین تک پہنچ گئی، تو پرانے تمام جنگلات ختم ہوچکے تھے۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جاپان لمبے عرصے تک اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ حالتِ جنگ میں رہا۔ جاپانی فو ج مختلف امور کے لئے لکڑی کا بے تحاشا استعمال کرتی تھی۔ یوں جاپان میں لکڑی کی قلت پیدا ہوئی اور جاپانیوں کو احساس ہوا کہ اب کچھ کرنا ہے۔ ویسے بھی جاپانی قوم دنیا کی محنتی ترین اور سنجیدہ اقوام میں شمار ہوتی ہے، اس لئے انہوں نے عہد کیا کہ جنگلات اُگانے ہیں اور نہ صرف اُگانے ہیں بلکہ ان کا بہتر طریقے سے انتظام اور تحفظ بھی کرنا ہے۔ یوں جاپانیوں نے جنگلات لگانے کا عمل شروع کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں انہوں نے اتنے درخت لگائے کہ کوئی بھی جزیرہ اور پہاڑ بغیر شجرکاری کے نہیں چھوڑا۔ یوں انہوں نے ثابت کیا کہ اگر ارادے پختہ اور جذبے سچے ہوں،تو دنیا کا مشکل ترین کام بھی ناممکن نہیں ہوتا۔ موجودہ دور میں جاپان میں تقریباً ستر فی صد علاقہ پر جنگلات ہیں۔ اب جاپان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے، جہاں سب سے زیادہ درخت ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ فن لینڈکے بعد دنیا میں وافر جنگلات کے لحاظ سے جاپان دوسرے نمبر پر ہے۔ ایک مملکت خداداد پاکستان ہے، جہاں جنگلات پورے ملک کے صرف دو فی صد رقبہ پر لگے ہوئے ہیں۔
ہم ’’ہیامی‘‘ جنگل پہنچے تو ’’ہیامی تورو‘‘ نے ہمیں خوش آمدید کہا اور سفید لکڑی کے بنے ایک کمرے میں ہمیں بٹھایا۔’’ہیامی تورو‘‘ اس جنگل کا مالک اور منتظم ہے جو تقریبا 1,070 ہیکٹرز پر محیط ہے، جہاں زیادہ تر اعلیٰ قسم ’’ہینوکی صنوبر‘‘ کے درخت ہیں۔ وہ ہمیں پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعے اپنے جنگل کی تاریخ اور انتظام کے بارے میں سمجھانے لگا۔ اس کا خیال تھا کہ ایک وقت تھا کہ انہوں نے اپنے جنگل سے کافی پیسہ کمایا، مگر اب چوں کہ جاپان میں جنگلات اتنے زیادہ ہیں کہ لکڑی سستی ہوگئی ہے اور اب یہ منافع بخش کاروبار نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا خاندان نو پیڑیوں سے ا س جنگل سے وابستہ ہے۔ اس کے مطابق اٹھارہویں صدی سے ان کا خاندان اس جنگل کو سنبھالتا چلا آرہا ہے۔ اب بھی ان کے جنگل میں تین سو سال پرانے درخت ہیں۔ اس کے ساتھ تقریباً چودہ ملازمین کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام ممالک میں غیر قانونی کٹائی بند ہونی چاہیے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ جاپان میں جنگلات زیادہ ہیں اور لکڑی کا استعمال کم اورجاپانی لوگوں کو لکڑی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔ کیوں کہ زیادہ ترجنگلات میں قیمتی درخت کٹائی کے لئے تیار ہیں، مگر استعمال کی کمی کی وجہ سے ضائع ہورہے ہیں۔ اگر لوگوں نے زیادہ لکڑی کا استعمال نہیں کیا، تو پھر جنگلات کا انتظام اور تحفظ نہیں ہوسکے گا، تاہم انہوں نے کہا کہ دنیا میں جنگلات اور ماحولیات کے تحفظ اور انتظام کے سلسلے میں قائم ایف ایس سی نامی ادارہ سے لائسنس یافتہ لکڑی کا استعمال کریں، تاکہ پوری دنیا میں غیر قانونی لکڑی کا اختتام ہو اور یوں دنیا میں جنگلات کی بہتر حفاظت و انتظام ہوسکے۔
میں یہ بات سن کر حیران ہوا کہ ایک ہمارا ملک ہے جہاں بے دریغ کٹائی سے سارے جنگل تباہ ہوکر رہ گئے ہیں، اور ایک جاپان ہے جہاں جنگلات اس لئے غیر محفوظ ہو رہے ہیں کہ لوگ انہیں بالکل ہاتھ نہیں لگا رہے ہیں۔ ہم نے ہیامی جنگل کا دورہ کیا اور کچھ وقت جنگل کے اندر گزارا جسے بڑے سلیقے سے رکھا گیا تھا۔ جنگل کے اندر ہر منظر خوبصورت اور رومانوی تھا، جہاں ہم نے ہر زاویے سے تصاویر بنائیں اور بعد میں واپس ہوئے۔ دوپہر کا کھانا ہم نے مقامی ریسٹورنٹ میں کھایا اور’’کی پہاڑی‘‘ سلسلہ پر قائم ایک قدیم پہاڑی راستہ ’’میگوز ٹوگے پاس‘‘ جسے پرانے زمانے میں زائرین استعمال کرتے تھے، کو دیکھنے کے لئے روانہ ہوئے۔ہم جب وہاں پہنچے اور بس سے اترے، تو سڑک کی بائیں جانب پہاڑ سے تقریباً آٹھ فٹ پیدل راستہ نیچے کی طرف آرہا تھا جس کے ساتھ ایک سائن بورڈ لگا ہوا تھا۔ یہ دراصل دو کلو میٹر راستہ ہے جس کو پہاڑی پتھروں سے پختہ کیا گیا ہے۔ یہ گھنے جنگل کے درمیان سے گزرتا ہوا انتہائی دلکش راستہ ہے۔ ہم راستے پر چڑھنے لگے، تو سکون و طمانیت کے علاوہ مختلف پرندوں کی چہچہاہٹ اور جگہ جگہ بہتے پانی کے جھرنوں نے سماں ایسا باندھا کہ ہم میں جیسے نئی روح پھونک دی گئی ہو۔ جب میں اس راستے پر چڑھ رہا تھا، تو مجھے سوات کا خیا ل آیا جہاں اس قسم کے سیکڑوں راستے تھے۔ بالکل اسی طرح پتھرکے ٹائلز سے مزین، مگر ہم نے کسی راستے کو نہیں چھوڑا اور تمام قدیم راستوں سے پتھر اٹھا کر اپنے گھروں میں لگا دیئے۔ تمام قدیم راستوں کو جو پرانے زمانے کی تہذیب یافتہ اقوام نے بنائے تھے، کو تباہ و برباد کرے رکھ دیا۔ جاپان نے اپنے اس قدیم ورثہ کو نہ صرف محفوظ رکھا ہے بلکہ باقاعدہ طور پر بحال بھی رکھا ہے۔ اب اہلِ جاپان اسے بین الاقوامی سیاحت کے لئے پیش کرتے ہیں۔ اس قدیم زائرین کے راستہ کو یونیسکو کے عالمی ورثہ میں شامل کیا جاچکا ہے۔ یہاں سیاح آتے ہیں، راستے پر چڑھتے ہیں اور قدیم تاریخ و ثقافت سے لطف اندوز ہوکرجب واپس جاتے ہیں، تو اپنے پیچھے مقامی لوگوں کے لئے ٹھیک ٹھا ک زرِمبادلہ بھی چھوڑتے ہیں۔ یوں تہذیب اور تاریخ و ثقافت کا یہ اثاثہ مقامی لوگوں کے لئے کمانے کا ذریعہ بھی ہے اور فخر کا مقام بھی۔
میں نے سوچا کہ سوات میں بھی ایسے قدیم ثقافتی راستے موجود تھے جن کو ہم محفوظ کرکے ثقافتی سیاحت کو ترقی دے سکتے تھے۔ ان سے ہم کثیر زرِمبادلہ بھی کما سکتے تھے، مگر افسوس کہ ہم نے ان تمام راستوں کو ختم کر دیا۔ ہمارے پاس اب بھی ’’ظلم کوٹ، تھانہ‘‘ کے مقام پر کشان دور کی ہزاروں سال پرانی سڑک اور راستہ موجود ہے جسے اب بھی ’’ہاتھی درہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، پر افسوس وہ بھی تیزی سے معدوم ہونے کی طرف گامزن ہے۔ ہماری حکومت یا ذمہ دار ادارے اور نہ عوام ہی اس کے تحفظ کے لئے کوئی اقدام کر رہے ہیں۔ جلد ہی یہ قیمتی اثاثہ ختم ہوجائے گا اور پھر ہم سب کفِ افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ (جاری ہے)
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔