میاں افتخار کا صائب مشورہ

اخباری اطلاع کے مطابق اے این پی کے میاں افتخار صاحب نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بعض سیاستدانوں کے غیر سنجیدہ بیانات اور فقرے جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں اور ان کا تکرار جمہوری نظام کو لپیٹ بھی سکتا ہے۔ سیاست میں بڑے سنجیدہ، تجربہ کار اور ذمہ دار افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ممالک اور اقوام کو سیدھے راستے پر گامزن رکھنے، حکومتوں کو درست انداز اور عمدہ معیار کے ساتھ چلانے کے لیے بڑے قابل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے اور دنیا میں صرف وہی قومیں سرخ رو ہوتی ہیں جن کے لیڈر اہل، صادق، امین اور قابل ہوں۔ ہمارے یہاں معاملہ الٹ ہے۔ پہلے تو ہمارے یہاں سیاستدان دوچار سے زیادہ نہیں ہیں۔ البتہ سیاست کار بہت سارے ہیں، جن میں بے شمار کا کردار نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ ملک و قوم کے لیے خطرناک و مشکلات کا باعث بھی ہے۔

بعض سیاستدانوں کے غیر سنجیدہ بیانات اور فقرے جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں اور ان کا تکرار جمہوری نظام کو لپیٹ بھی سکتا ہے۔ (Photo: dawn.com)

ہمارا یہ تاریخی المیہ ہے کہ آزادی پانے پر ہماری حکومت اور حکمرانی کی کرسیوں پر جو لوگ براجمان ہوئے، وہ حکومت اور حکمرانی دونوں کی اہلیت نہ رکھتے تھے۔ خود بے شمار مشکلات اور معاشی و نفسیاتی مسائل کا شکار تھے، وہ کسی قوم کی تعریف میں بھی نہیں آتے تھے۔ اس لیے وہ فکری اور عملی اتحاد کا مظاہرہ نہ کرسکے۔ ایک اور بدقسمتی یہ بھی تھی کہ وہ کم و بیش صرف اپنے آپ کو پاکستان کے تنہامالک سمجھ رہے تھے اور یہاں کی مقامی اقوام کو وہ اہمیت نہیں دے رہے تھے، جوان کا جائز حق تھا۔ یہ حکمران انبوہ ہر قسم کی تنقید اور اختلاف رائے کا شدید مخالف تھا۔ آپس میں مشت بہ گریبان اس انبوہ کو مسلم لیگ کے نام سے شروع کے گیارہ سال ایسی حکومت ملی جس میں کوئی قابلِ ذکر حزبِ اختلاف نہیں تھا۔ ہندوستان کے مختلف جغرافیائی، سماجی اور نسلی لحاظ سے بلکہ عقائد کے اختلاف رکھنے والے لوگ اچانک حکمران اور حاکم بن بیٹھے۔ حالاں کہ نوزائدہ مملکتِ خداداد کو بہت تجربہ کار، ذہنی طور پر ہم آہنگ، حکمرانی اور سیاسی امور میں دسترس رکھنے والے افراد کی ضرورت تھی۔
وطن عزیز کی سیاسی تاریخ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ غیر سنجیدہ اور غیر تجربہ کار لوگ اس پر تاحال قابض ہیں، جن کا مشترکہ عقیدہ ہے کہ صرف میں اور میرا مؤقف ہی درست ہے۔ دوسرے کا سب کچھ صفر ہے۔ یہ رجحان سب میں ایک جیسا ہے۔ حقیقت پسندی اور حقیقت کو تسلیم کرنے کی صلاحیت بہت کم سیاسی اشراف میں ہے۔ آج نواز شریف کہتا ہے کہ میرے ساتھ بے انصافی ہوئی یعنی عدالت اور اس کی تمام کارروائی غلط تھی۔ اُس کی ’’لاڈلی‘‘ اور اُس کے ساتھی نہایت ہی نا مناسب الفاظ اور طریقے استعمال کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ نہایت ہی مضبوط اداروں کو غصے میں لانے کی عملی کوششیں کر رہے ہیں، تاکہ ان کو سیاسی شہادت مل جائے، بے شک جمہوریت ہی لپیٹ دی جائے۔ پیپلز پارٹی آج تک یہ روناروتی ہے کہ بڑے بھٹو کو عدالت نے قتل کیا تھا۔ وہ اُس نہایت ہی مفصل، مدلل اور بہت لمبے مقدمے کو صفر کر رہی ہے جس کے نتیجے میں بڑے بھٹو کو اس دنیا سے جانا پڑا۔ یہ تو ہمارا چشم دید قسم کا مقدمہ تھا، اُس وقت ہم عمر کے عمدہ ترین حصے میں تھے اور ہمیں یاد ہے کہ بھٹو کی پھانسی کی وجہ اُس کی پارٹی کے بعض افراد کی نالائقی بھی تھی بلکہ بعض ناقدین تو یہ بھی کہتے تھے کہ یہ نالائق لوگ بھٹو کی رہائی میں اپنی سیاسی موت دیکھ رہے تھے۔ کیوں کہ بھٹو اُن سے اُن کی نالائقیوں پر ضرور پوچھتا۔

آج نواز شریف کہتا ہے کہ میرے ساتھ بے انصافی ہوئی یعنی عدالت اور اس کی تمام کارروائی غلط تھی۔

نوازشریف کی جماعت عددی لحاظ سے بڑی جماعت تھی، لیکن تعجب کی بات ہے کہ اس بڑی اور مالدار لوگوں کی جماعت میں وزارتِ خارجہ اور وزارتِ خزانہ کے لیے موزوں افراد نہ تھے۔ خارجہ اور خزانہ اہم ترین وزارتیں ہوتی ہیں۔ ان کے لیے عوام سے ووٹ حاصل کرنے والے زیادہ مناسب خیال کئے جاتے ہیں، لیکن یہاں کم سینیٹرز سے کام چلایا گیا۔ نئی امریکی اور بھارتی پالیسی کیلئے پاکستان کی تہی دستی اور خوفناک مالی بحران کی صورت حال نے ثابت کردیا کہ نون لیگ ان وزارتوں کے حوالے سے قابل فخر کام نہ کرواسکی اور آج یہ جماعت ایک بچکانہ طریقہ اور وطیرہ اپنائی ہوئی ہے۔ ملک کی معاشی حالت کو اس اور سابقہ حکومت نے اس حد تک برباد کیا ہوا ہے کہ ہر کوئی انقلاب کا متمنی نظر آتا ہے۔ سرکاری محکموں میں سے اکثر خود غرض افراد کے ہاتھوں مغلوب ہوگئے ہیں۔ جھوٹ، فریب، غبن اور کرپشن کا ناسور حد سے بڑھ گیا ہے، جو کسی سخت ترین آپریشن کا تقاضا کرتا ہے جبکہ مسئلہ کسی آپریشن سے تب حل ہوگا کہ اس کی پشت پر سنجیدہ اور پُر وسائل سیاسی قوت ہو، جو کہ ہمیں نظر نہیں آتی۔ عمدہ زبان، حقائق کے تسلیم کرنے، ایک دوسرے کی اور خصوصاً اپنے ملکی اداروں کی اہمیت اور احترام سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ٹھکراؤ اور ہرزہ سرائی سے معاملات اور بھی بگڑ جائیں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ نواز شریف صاحب اور آپ کے وفاداروں کو عدالت کا مخالفانہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ مخالفانہ فیصلہ کسی بھی مجرم یا ملزم کو پسند نہیں ہوتا، لیکن اُسے تسلیم کرنے کے علاوہ تو کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ مسلم لیگ نون اپنے اندر جمہوریت قائم کرکے پارٹی اقتدار شریف خاندان سے منتقل کرے؟ پاکستان میں صدارتی اور پارلیمانی نظام (دو قسم والی حکومتیں) ناکام ثابت ہوا ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ وطنِ عزیز میں متناسب نمائندگی کا طریقہ بھی آزمایا جائے۔ اسلامی نظام پر درباری ملاؤں سے لے کر محراب، منبر اورمدارس کوئی بھی قانون کا مسودہ نہ بنا سکا۔ بالغ رائے دہی کے موجودہ نظام سے اسلامی حکومت قائم ہی نہیں ہوسکتی۔ سوشلسٹ لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لیے سوشلزم کے نفاذ کا بھی امکان نہیں۔ اس لیے اگر سیاست کاروں کی غیر سنجیدگی اور بد دیانتیاں اس طرح رہیں، تو ڈکٹیٹر شپ کا قیام عین ممکن ہے۔

……………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔