بڑی شخصیت کا چھوٹا جنازہ

وہ حسن کا مصور تھا۔ وہ لفظوں کا جادوگر تھا۔ اُس نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے وطن کی خوبصورتیوں کو سمیٹنے کے لیے استعمال کیا۔ وہ ساری زندگی اپنے وطن کی مٹی پر اپنے فکر و فن کے پھول نچھاور کرتا رہا۔ وہ اپنی دھرتی کی مٹی میں پوشیدہ پڑے گوہر آگیں نگینوں کا متلاشی رہتا تھا۔ وہ پشتو ادب کے باغ کا مالی تھا۔ اپنے خونِ جگر سے اس باغ کو سینچتا رہا اور پشتو شعر و ادب کو زر خیز بناتا رہا۔ وہ امن کا پیامبر اور نغمہ گر تھا۔ وہ محبت کا بنجارا تھا۔ اپنی دھرتی کو ہر قسم کے طوفانوں سے بچانے کا خواہش مند تھا۔ اُس کے خیالات اور افکار، حسن و محبت کے اتھاہ سمندر تھے۔ اُس کے ذہن اور دل کے کٹورے نور اور عرفان کی مٹھاس سے لبریز تھے۔ اُس کی باتوں سے موتی جھڑتے تھے۔ اُس نے اپنے وطن کی گل گشت وادی اور ’’برفیلی چوٹیوں‘‘ (واورنی سوکی، شاعری) کی لفظی تصویریں بنا کر محبت کرنے والوں میں بانٹیں۔ اُس کے ’’پہاڑی خیال‘‘ (غرسنی خیالونہ) پشتو ادب کے لیے تحفہ خاص ہیں۔ وہ اپنی تہذیب، اپنی تاریخ اور اپنے کلچر کا امین تھا۔ وہ اپنی دھرتی کی ’’راجکماری‘‘ (راجگنڑہ ناول) اور ’’بی بی مبارکہ‘‘ ناول جیسے کرداروں کا بھی خالق تھا۔ اُس نے پشتونوں کی تاریخ کے اوراق کی روشنی میں ’’سکندر اعظم‘‘ کی زندگی سے پردے سرکائے۔ وہ پشتونوں کے پاؤں میں پڑی رسم و رواج کی ’’بیڑیاں‘‘ (پیکڑے) بھی دیکھ رہا تھا، جسے وہ توڑنے کے لیے تگ و دو کر رہا تھا۔ وہ اس وطن میں آنے والے حالات کے ’’زلزلے‘‘ (شاعری) بھی محسوس کر رہا تھا۔ بہت جلد اُس کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوگئی۔ اور وقت کے جابر اور دیوہیکل دیو نے اس دھرتی پر اپنی وحشت اور دہشت کی شیطانی لکیر کھینچ ڈالی۔ زمانے کے یلغاریوں نے یلغار کردی۔ ساری دھرتی اُن کے قبضے میں آگئی۔ زندگی اجیرن ہوگئی۔ سانسیں سینوں میں قید ہوگئیں۔ ہلنا جلنا بھی دوسروں کے تابع ہوگیا۔ قدم قدم پر خوف پھیل گیا۔ ماحول آتشیں ہوگیا۔ فضا بارود اور دھویں سے آلودہ ہوگئی۔ برفیلی چوٹیوں کی آبشاروں کے دودھیا شفاف پانی میں انسانی خون کا رنگ گھل گیا۔ چشموں اور چناروں پر آگ برسنے لگی۔ سکول، مساجد، حجرے اور گھر کھنڈر بن گئے۔ بازاروں کے چوک قتل گاہ بن گئے۔ ہر طرف خوف کی فضا پھیل گئی۔ لوگ اپنے کھنڈر نما گھروں میں مقید ہوکر رہ گئے۔ ہر طرف غیر یقینی کی صورتحال تھی۔ کوئی بھی محفوظ نہ تھا۔ پرندوں کا شور خاموش تھا۔ اُن کے گھونسلے جل چکے تھے یا گولیوں سے چھلنی ہوچکے تھے۔ کہیں بھی سر چھپانے کی جگہ نہ تھی۔ ہر کوئی اپنے آنگن میں خوفزدہ تھا، گویا یہیں میرا قاتل موجود ہے جو ابھی میرا سر تن سے جدا کردے گا۔

رحیم شاہ رحیم کی رحلت کے بعد چھپنے والی نایاب تخلیق (فوٹو: شعیب سنز بکسلیرز اینڈ پبلشرز، جی ٹی روڈ مینگورہ سوات)

اُس کی دھرتی پہ انسانیت سوز عمل جاری تھا۔ وہ اک حساس شخص تھا۔ وہ یہ سب کچھ بڑے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ وہ سر زمین جسے اُس نے اپنے خون سے سینچا تھا۔ اُس پہ آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس کا گلشن تاراج ہو رہا تھا۔ اُس میں یہ سب کچھ دیکھنے کی سکت نہیں تھی۔ اُس سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ قاتلوں کا ہاتھ پکڑنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا تھا۔ وہ کڑھ رہا تھا۔ اُس کے اندر اک جنگ جاری تھی۔ اُس کے دل و دماغ میں اک ہڑبونگ مچی ہوئی تھی۔ اُس نے تو اپنی زندگی اپنے وطن، اپنی مٹی، اپنی زبان اور اپنے عوام کی بھلائی اور خوشحالی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ وہ یہاں جاری ظلم، جبر، بربریت اور انسان سوز واقعات کہاں دیکھ سکتا تھا۔ وہ اپنی دھرتی کو الاؤ میں جلتا ہر گز نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اُس میں بے گناہ انسانوں کو قتل ہوتے دیکھنے کی تاب ہی نہ تھی۔ ایسے میں وہ اپنی بے بسی کے ہاتھوں زندگی ہی سے مایوس ہوگیا۔ اُس نے اپنے دل سے کہا: ’’میری جنت اُجڑ رہی ہے، میری بے گناہ پختون قوم کا قتل عام ہو رہا ہے جبکہ میں بے بس ہوں۔ لہٰذا ایسی زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ یہ سب کچھ میں اپنی آنکھوں کے سامنے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ گویا اُس نے اپنے دل سے مزید نہ دھڑکنے کا معاہدہ کرلیا اور اُس کے دل نے بھی اُس کی مان لی اور یک دم دھڑکنا بند کردیا۔ یوں پشتو ادب کے آسمان پہ چمکنے والے اور درخشندہ ستارے اور بلند فکر و فن کے مالک نے پانچ دسمبر 2007ء کو اپنی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کرلیں۔
یہ وہ دن تھا جب پوری دھرتی کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ سوات میں دہشت گردی کے خلاف ’’راہِ حق‘‘ آپریشن جاری تھا۔ پورے سوات میں کرفیو نافذ تھا۔ کسی کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ گولیوں کے ساتھ مارٹر گولے بھی برس رہے تھے۔ باہر کے حالات سے کوئی بھی باخبر نہیں تھا۔ صبح سات بجے میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ دوسری جناب سکندر حیات کسکرؔ اپنی رونی آواز میں کہہ رہے تھے کہ ’’رحیم شاہ رحیمؔ وفات پاگئے ہیں۔ وہ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے ہیں۔ آج دس بجے اُن کا جنازہ ہوگا۔‘‘ اُس وقت میری کیا کیفیت تھی؟ اس کا اظہار ممکن نہیں۔ بس اتنا ہی کہہ پایا کہ ’’باہر تو کرفیو ہے، کیسے جائیں گے؟‘‘ کسکر نے جواب میں کہا کہ ’’شیر محمد لالا (شیر محمد ایڈووکیٹ) کو خدا لمبی عمر دے۔ اُنہوں نے آپریشن انچارج سے جنازے کے لیے ایک گھنٹہ کرفیو میں نرمی کی اجازت لے لی ہے۔‘‘ بس پھر کیا تھا۔ گھر سے نکلا اور اُلٹے سیدھے راستوں سے ہوتا ہوا جنازہ گاہ (جنازو جمات) پہنچا کہ پشتو ادب کے نامور شہسوار کا آخری دیدار کرسکوں۔ دید کی چادر ہٹتے ہی مجھ سے رہا نہ گیا اور میں دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گیا۔ یہ وہ عظیم انسان تھا جس کی ادبی دنیا میں شہرت چار دانگ تھی لیکن آج حالات کی نزاکت کے سبب اس کے جنازے میں گنتی کے چند افراد ہی موجود تھے۔ گویا کسی لاوارث کا جنازہ ہو۔ یہ میری زندگی میں کسی بڑے انسان کا سب سے چھوٹا جنازہ تھا۔
(نوٹ:۔ قارئین، دراصل یہ تحریر ظفر علی نازؔ کے ایک پشتو انشائیے کا ترجمہ ہے)

…………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔