کھیل اور تعلیم: ترجیحات، چیلنجز اور اجتماعی ذمے داری

Blogger Doctor Gohar Ali

پرنسپل کی حیثیت سے مجھے ’’انٹر سکولز سپورٹس گالا 2025ء‘‘ میں پہلے کبل گراؤنڈ میں فٹ بال مقابلوں کے چیئرمین اور بعد ازاں ادبی مقابلوں (جن میں 14 ایونٹس شامل تھے) کے آبزرور کے طور پر خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا۔ ایتھلیٹکس کے علاوہ تمام میجر اور مائنر گیمز ضلعی سطح پر اختتام پذیر ہو چکے ہیں اور اب ان مقابلوں کا سلسلہ ڈویژنل سطح پر آگے بڑھ رہا ہے۔
یہ مقابلے جہاں پبلک سیکٹر کے لیے رسمی تھے، وہاں پرائیوٹ سیکٹر کے لیے بھی شرکت ضروری قرار دی گئی تھی، تاہم اس کے باوجود نجی اداروں کی شرکت انتہائی محدود رہی۔ اس عدم شرکت کی ممکنہ وجوہات میں ایک یہ ہے کہ بہت سے پرائیوٹ سکول اپنے ادارے کی شہرت کا دار و مدار صرف امتحانی نتائج پر رکھتے ہیں، تاکہ والدین اور کمیونٹی میں اپنی ساکھ مضبوط کرسکیں۔ دوسری ممکنہ وجہ یہ ہے کہ کھیلوں میں اخراجات کے باعث اُن کی آمدنی متاثر ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ علاوہ ازیں کچھ ادارے اس وجہ سے بھی اپنے طلبہ کو حکومتی سرپرستی میں منعقد ہونے والی سرگرمیوں میں شامل نہیں کرتے کہ وہ ایک بند ماحول کے عادی ہوتے ہیں اور اُنھیں دیگر اداروں کے ساتھ طلبہ کے باہمی میل جول پر تحفظات ہوتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود فروبل کبل، ایس پی ایس، المدینہ پبلک سکول اور خپل کور ماڈل جیسے چند نجی اداروں کی کارکردگی نہایت متاثر کن رہی۔
آبزرور کے طور پر جب میں پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کے طلبہ کی کارکردگی دیکھتا رہا، تو ذہن میں ایک سوال بار بار اُبھرتا رہا کہ اتنے بھرپور ٹیلنٹ کے باوجود بورڈ امتحانات میں سرکاری سکولوں کے طلبہ پیچھے کیوں رہ جاتے ہیں؟ یہ سوال صرف اکیڈمک سسٹم کی ساکھ ہی نہیں، بل کہ ہمارے تعلیمی ترجیحات، تربیتی معیار اور ادارہ جاتی اعتماد کا بھی مظہر ہے۔
اسی طرح مَیں نے یہ بھی محسوس کیا کہ جب بچے سکول کی حدود سے باہر نکلتے ہیں، تو بعض اوقات اُن کے اخلاقی رویوں میں نمایاں تبدیلی آتی ہے، جیسے نامناسب زبان کا استعمال یا باہمی بدتمیزی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کی ذمے داری مکمل طور پر تعلیمی اداروں پر ہے؟ میرے نزدیک اس رویے کی ذمے داری مشترکہ ہے، جس میں گھر، محلہ، میڈیا اور مجموعی سماجی ماحول سب شامل ہیں۔ اگر تربیت کا بنیادی ستون کم زور ہو، تو سکول اکیلا مکمل اصلاح کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔
ان مقابلوں میں ایک اور نمایاں مسئلہ گراؤنڈ انچارج اور ججوں کی ٹریننگ کا فقدان تھا۔ کمٹمنٹ اپنی جگہ، لیکن کھیل یا ادب کی تکنیکی سمجھ کے بغیر فیصلہ سازی اکثر ٹیلنٹ کے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔ ادبی مقابلوں میں اساتذہ کی نامناسب نام زدگی نے واضح کیا کہ آیندہ سالوں کے لیے ججوں اور آرگنائزروں کی پیشہ ورانہ تربیت ناگزیر ہے۔
امسال حکومتِ خیبر پختونخوا نے سکولوں کے لیے کھیلوں کے فنڈز جاری کیے ہیں، تاہم ان کے موثر استعمال اور گراؤنڈ کی نگرانی کا نظام زیادہ تر کاغذی کارروائی تک محدود رہا۔ کیوں کہ ان دنوں تعلیمی اداروں میں سالانہ امتحانات بھی جاری تھے۔ نتیجتاً طلبہ کو ایک طرف امتحانی دباو اور دوسری طرف کھیلوں میں کارکردگی کا دباو برداشت کرنا پڑا۔ یہاں یہ سوال نہایت اہم ہے کہ کیا ہماری پالیسی سازی میں ترجیحات کا تعین واضح ہے یا ہم بہ یک وقت دونوں میدان سنبھالنے کی کوشش میں طلبہ کے ذہنی توازن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں؟
ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم طلبہ کو کیا بنانا چاہتے ہیں؟ صرف کتابی تعلیم تک محدود انسان…… یا ہمہ جہت شخصیت کے حامل نوجوان؟
کھیل کردار سازی، بردباری، ٹیم ورک اور قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد رکھتا ہے۔ مگر دوسری جانب یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ پاکستان میں کھیلوں کے میدان میں بغیر سفارش کے آگے بڑھنا نہایت دشوار سمجھا جاتا ہے۔ نتیجتاً والدین کھیل کو ترجیحات میں کم ہی جگہ دیتے ہیں، کیوں کہ اُنھیں خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں اُن کا بچہ نہ کھیلوں کی چمک دمک میں تعلیم کو نظر انداز کر دے اور مستقبل میں ایک بوجھ بن جائے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک متوازن تعلیمی و سماجی ڈھانچا تشکیل دیں، جس میں تعلیم اور کھیل دونوں ایک دوسرے کے معاون اور تکمیلی عناصر قرار پائیں، نہ کہ متصادم قوتیں۔
اس کے لیے:
٭ادارہ جاتی اعتماد بحال کرنا ہوگا۔
٭ ٹرینڈ ججز اور آرگنائزرز کی تربیت کو لازم بنانا ہوگا۔
٭ کھیلوں اور تعلیم کے شیڈول کی ہم آہنگی ضروری ہے۔
٭ والدین اور کمیونٹی کو کردار سازی میں شریک کرنا ہوگا۔
اگر ہم اپنے طلبہ کو اخلاقی، جسمانی اور علمی طور پر مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں مشترکہ ذمے داری کے تحت آگے بڑھنا ہوگا۔ ٹرافی اور شہرت وقتی چیزیں ہیں، مگر کردار اور انسانیت کا وقار دائمی اشیا ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے