کراچی کی ایک سہ منزلہ عمارت وزیر مینشن کی دوسری منزل پر ایک دُبلا پتلا سا ذہین بچہ دنیا و مافیہا سے بے خبر مطالعے میں مصروف تھا۔ رات آدھی گزر چکی تھی۔ گھرانے کے کسی فرد نے آواز دی بس کرو مطالعہ، سو جاؤ اور آرام کرو۔ ذہین بچے نے کہا کہ اگر کام اور مطالعہ نہیں کروں گا، تو زندگی میں کامیابی کی سیڑھی کیسے چڑھوں گا؟ یہ ذہین بچہ بڑا ہوکر برصغیر کے مسلمانوں کا مخلص راہنما بنا جسے دنیا قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے جانتی ہے۔ پاکستانی قوم ہر سال دسمبر کی پچیسویں تاریخ کو اپنے اس عظیم رہنما کا یومِ پیدائش نہایت عقیدت و احترام سے مناتی ہے جس نے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کو انگریز اور ہندوؤں کی دُہری غلامی سے نجات دلائی۔ برصغیر میں تحریک آزادی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کی ابتدا تقریباً والیانِ میسور سلطان حیدر علی اور اس کے بیٹے سلطان ٹیپو سے ہوتی ہے۔ باپ بیٹے دونوں نے ننگ وطن کی خاطر جام شہادت نوش کیا اور اپنے خون سے خاک وطن کی آبیاری کی اور بقولِ شاعر دنیا پر یہ ثابت کیا کہ
آزادیٔ اسلام کا رنگین فسانہ
لکھا ہوا ہے سرخیٔ خونِ شہدا سے
جنگ آزادی 1857ء کے بعد انگریزوں نے جزائر انڈیمان میں چھے سو علما کو آزادی مانگنے کی پاداش میں ایک ہی روز تختۂ دار پر لٹکا دیا اور اسی طرح ہزاروں مجاہدوں، علما اور حریت پسندوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ علما نے انگریزوں کے خلاف فتوے دیے اور باشندگان برصغیر میں آزادی کی تڑپ کو زندہ رکھا۔ اس تحریک میں شاہ اسماعیل شہید اور آپ کے ساتھیوں نے اور بھی تیزی پیدا کی۔
آزادی کا یہ کارواں منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں رہا۔ اگر اس تحریک میں علما کی جانی و مالی قربانی، قید و بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں اور علامہ اقبال اور دیگر مفکرین کی کاوشوں کو بھلایا نہیں جاسکتا، تو اس تحریک میں بابائے قوم، بانئی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی مرکزی کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جنہوں نے اُس تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کیا کہ انہوں نے علما، مجاہدین، شہدا کی قربانیوں اور دوسرے زعما کے افکار کو عملی جامہ پہنایا۔ یہاں تک کہ مملکتِ خداداد کی آزادی کی خاطر اپنی جان کی بھی پروا نہ کی۔ غیر منقسم ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’اگر ہمیں مسٹر جناح کی بیماری کا علم ہوتا، تو ہم قیامِ پاکستان کی جدوجہد کے عمل میں ضرور رکاؤٹ پیدا کرتے اور اسی طرح ہندوستان کے بٹوارے اور عظیم اسلامی مملکت کی قیام کی نوبت نہ آتی۔‘‘ لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ بابائے قوم کی رحلت کے بعد ہم طویل جدوجہد اور بے حساب قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اس بڑی اسلامی مملکت کی رکھوالی کے اہل ثابت نہ ہوسکے اور قومی املاک کی لوٹ مار، خود غرضی، سیاسی تعصب اور تفرقہ میں پڑ کر آدھا ملک گنوا بیٹھے۔
بابائے قوم ایک ایسے ملک اور نظام کے خواہاں تھے جو دوسروں کے لیے نمونہ ہو۔ آپ پاکستان کو اسلام کا قلعہ دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ کا فرمان تھا کہ پاکستان بفضلِ خدا ہر قسم کے وسائل اور ٹیلنٹ سے مالا مال ہے لیکن اس کی بجائے ہم اس عظیم اسلامی ملک کو اس کا صحیح مقام نہ دے سکے اور اسے عالمی سود خوروں کے خونیں پنجوں میں دے دیا جنہوں نے اس کا خون نچوڑ دیا۔ قائد نے ایک مستحکم پاکستان بنانے کی کوشش کی یہاں تک کہ اپنی بیماری کو چھپا کر مملکتِ خداداد کے استحکام اور ترقی کی خاطر مسلسل کام کرتے رہے لیکن ہم نے پھر بھی قائد کی قربانی کو فراموش کردیا۔
اس بار ہم پھر بابائے قوم کی سالگرہ منارہے ہیں لیکن غور کا مقام ہے کہ جس اسلامی ملک کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور بابائے قوم نے نصرتِ خدا وندی اور مسلمانانِ ہند کے عملی تعاون سے عملی شکل دی، آج اس اسلامی ملک میں غربت، نا خواندگی، بے روزگاری، مفاد پرستی، خود غرضی اور ظلم و جبر کا راج ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس روز ہم اپنے کردار اور اعمال کا جائزہ لیں اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں کہ اگر روحِ قائد کو خوش کرنا ہے، تو افکارِ قائد پر عمل کرنا ہوگا۔ ورنہ جو قومیں اپنے محسنوں کے افکار کو بھلاتی ہیں، وہ صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔
……………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔