اس وقت اگر ہم حالات کا بنظرِ غائر جائزہ لیں، تو ملکی صورتِ حال بڑی پیچیدہ اور گھمبیر نظر آتی ہے۔ قطعِ نظر اس کے کہ پی ٹی آئی قیادت اور ٹیم میں ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے یا نہیں، لیکن ایک بات واضح ہے کہ پی ٹی آئی کو واضح، دوٹوک اور مناسب مینڈیٹ نہیں ملا۔ جس کی بنیاد پر وہ اپنی تبدیلی کے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے قانون سازی کرسکے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں قانون ساز اداروں میں اس کے سامنے بھاری بھر کم حزبِ اختلاف موجود ہے۔ اور یہ حزبِ اختلاف اس صورت میں اور زیادہ خطرناک اور جارحیت پر آمادہ ہے کہ اس کے زیادہ تر اور نمایاں افراد پر کرپشن کے مقدمات نیب عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں اور وہ اپنی بقا کے لیے ہر حربہ اور داؤ پیچ استعمال کر سکتا ہے۔ ایسے میں حالات سے مجبور ہو کر یا تو ان کے ساتھ ’’این آر اُو‘‘ کرکے مفاہمت کا ماحول بنانا ہوگا اور یا ان کو قانون کے حوالے کرکے قانون سازی کو ممکن بنانے کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ پاکستان میں سیاسی عناصر اپنے آپ کو قانون اور آئین و دستور سے ماورا اور بالاتر سمجھتے ہیں۔ قانون اگر ان کے حق میں ہو، تو قابلِ قبول ورنہ دوسری صورت میں نوازشریف اور ان کے پارٹی ارکان نے باقاعدہ حملہ کرکے عدالت کو شکست فاش دی اور ججز کے ذریعے عدالتی سیٹ اَپ کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق تشکیل دے دیا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹونے ان عدالتوں کو ’’کینگرو کورٹس‘‘ قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ جب ہم برسرِ موقع حالات و واقعات کو دیکھتے ہیں، تو اپنے اپنے دور میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں نے اپنے خاص اور چہیتے افراد کو قانون، ضابطے اور میرٹ نظر انداز کرکے اہم اور بنیادی اداروں میں تعینات کیا تھا۔ جیسے پی ٹی وی کارپوریشن میں عطاء الحق قاسمی کی پوسٹنگ کو عدالتِ عالیہ بھی غیر قانونی اور میرٹ کے خلاف قرار دے چکی ہے۔ سٹیٹ بینک کے طارق باجوہ کے بارے میں بھی یہ تاثر عام ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے فیصلے کو موجودہ حکومت کے لیے معاشی دھماکے کی خاطر استعمال کیا گیا۔ حکومت کی ساکھ، اہلیت اور قوتِ فیصلے کی کمزوری کو عوامی سطح پر نمایاں اور اُجاگر کیا گیا۔ اسی طرح معلوم نہیں کتنے اور بنیادی اداروں میں موجودہ حکومت دشمن عناصر چھپے بیٹھے حالات کو خراب کررہے ہیں۔ عمران خان کی نشتر ہال میں تقریر سے بھی اس کی نشان دہی ہوتی ہے کہ محکمۂ صحت کے دو سیکرٹری ہمارے خلاف کام کر رہے تھے۔ ویسے آئے روز بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ سے اس تاثر کو اور بھی تقویت ملتی ہے کہ حالات اندرونِ خانہ کنٹرول میں نہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی وزرا کی ٹیم اور عوامی نمائندے بھی اس قابل نہیں کہ بیوروکریسی کے بے لگام گھوڑے کو قابو میں لا کر حالات کو کنٹرول کر سکیں۔ جب صوبائی سطح پر یہ صورت حال ہے، تو اضلاع کی سطح پر تو حکومتی اثر رسوخ اور کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بس یہی کہ ڈیڈک چیئر مین نے کبھی ہسپتال کا دورہ کیا، تو کبھی کسی تقریب سے خطاب کیا۔ ضلعی سطح پر اداروں کی مانٹرینگ، نگرانی اور باز پرس کا توکوئی تصور ہی نہیں۔ معاشی صورت حال سے تو یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عمران خان، اسد عمر اور اس کی اقتصادی ٹیم عوام کو بہلا کر اور گھیر گھار کر آئی ایم ایف کی طرف ہانک رہی ہے۔ ایک طرف تو آئی ایم ایف کے مطالبات از خود ان کے کہنے سے قبل منظور کررہی ہے، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کے مطالبات میں اور اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹیکسز کے نفاذ میں اضافہ کئی بنیادی اداروں کی نجکاری، بھارت کے ساتھ پُرامن تعلقات اور تجارت ’’سی پیک‘‘ سے دستبرداری اور بہت سے مطالبات آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر موجود ہیں۔ اسد عمر صاحب ایک طرف تو آئی ایم ایف کے ساتھ کبھی ویڈیو لنک کے ذریعے مذاکرا ت کررہے ہیں ا ور کبھی قوم کو لوریاں اور تسلی دیتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے میں ہمیں جلدی نہیں۔ تاکہ قوم کو ذہنی طور پر آئی ایم ایف کی شرائط کے لیے تیار اور آمادہ کیا جاسکے۔ اس دوران میں ملکی سطح پر معیشت کی بحالی، نشو و نما اور ترقی کے لیے کوئی منصوبہ منظرِ عام پر نہیں آیا۔ دو سو ارب ڈالر جو منی لانڈرنگ کے ذریعے با ہر کے بینکوں میں پڑے ہیں، دعوؤں کے باوجود مذکورہ رقم کو واپس لانے کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے۔
ابھی کل کی خبر ہے کہ نیب کے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں چیئرمین نیب کی زیر صدارت 179 میگا سکینڈلز کے بارے میں غور کیا گیا، یعنی نیب کی اب تک کی کارکردگی نتیجے کے لحاظ سے کسی طور بھی قابلِ اطمینان نہیں۔ باوجوداس کے کہ جسٹس جاوید اقبال جیسے قابل اور اچھی شہرت کی مالک شخصیت کی سربراہی میں بھی نیب کسی ایک کیس کو منطقی انجام تک نہیں پہنچاسکی۔ اس سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عدالتی شخصیات کے پاس انتظامی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود نہیں ہوتی۔ جبھی نیب اور الیکشن کمیشن اب تک ناکام ترین ادارے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ نیب میں انتظامی امور پر مامور بیوروکریسی کے ارکان پرویز مشرف دورِ حکومت اور نواز دورِ حکومت کے تعینات کردہ ہیں۔ اس وجہ سے اب تک جو بھی کیس نیب عدالت کے سامنے آیا۔ وہ نیب پراسیکوٹر کی نااہلی اور کمزور دفاع کی وجہ سے قانونی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکا۔ ان تمام امور و معاملات، صورتِ احوال اور پیچیدگیوں کے پیشِ نظر ملکی بقا، حفاظت اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ حالات کو کنٹرول کرنے کی خاطر غیر معمولی اور انقلابی اقدامات اٹھائے جائیں۔ وہ بظاہر یہ ہوسکتے ہیں کہ فوج، عدلیہ اور سیاسی پارٹیوں میں موجود سنجیدہ، کرپشن سے پاک، محب وطن عناصر مل کر سر جوڑیں۔ غور و فکر کریں اور ملک و قوم کو ان نازک حالات سے نکالنے کے لیے 1973ء کے دستور کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے ایک قومی حکومت تشکیل دیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ بیدار قومیں ہنگامی صورت حال میں غیر معمولی فیصلے کرکے قومی کشتی کو بھنور سے نکالتی ہیں۔ اگر ہم اخلاص، حبِ وطن اور قوم کی فلاح و بہبود کے جذبے سے سر شار ہو کر غیر معمولی فیصلے کریں گے، تو اِن شاء اللہ پوری قوم کی تائید و حمایت بھی اس کو حاصل ہوگی۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔