بال نہیں، کمال چاہیے (فکاہیہ تحریر)

Blogger Syed Asrar Ali

بالوں کا گرنا دنیا کا سب سے عام لیکن سب سے غیرمعمولی بحران ہے۔ ایک دن آپ آئینے میں بالوں کو سنوار رہے ہوتے ہیں، اور دوسرے دن انگلیاں صرف یادیں سنوار رہی ہوتی ہیں۔
بالوں کا جانا کسی پرانی محبت کی طرح ہوتا ہے…… واپس نہیں آتے، لیکن یاد بہت آتے ہیں!
صبح اُٹھ کر تکیے پر پڑے ہوئے بال دیکھ کر لگتا ہے، جیسے کسی نے رات بھر خاموشی سے سازش کی ہو…… لیکن جناب! ہر المیہ کے پیچھے ایک موقع چھپا ہوتا ہے، اور اس کا سب سے چمکتا دمکتا ثبوت ہے شفیق ہاشمکیرالہ، بھارت سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان جو اپنی ٹنڈ کے سہارے ایسا کاروبار کر رہا ہے کہ بڑے بڑے مارکیٹنگ ایجنسیوں کے بال کھڑے ہو جائیں (اگر ہیں تو……!)
شفیق نے اپنے گنجے سر کو ایک مکمل بل بورڈ بنا دیا ہے۔ جی ہاں، وہ اپنی ٹنڈ کرائے پر دیتے ہیں، اشتہار لگواتے ہیں، نعرے چھپواتے ہیں، لوگو بنواتے ہیں اور ہر اشتہار کے عوض پچاس ہزار روپے کماتے ہیں۔ لوگ سر پکڑ کر بیٹھے ہوتے ہیں، شفیق بھائی سر دکھا کر پیسے بنا رہے ہوتے ہیں۔ اَب بال تو خیر اُن کے سر پر نہیں، مگر مارکیٹنگ کی دنیا میں وہ ہر ایک کی نظروں میں ضرور ہیں۔
شفیق کا کہنا ہے: ’’جہاں دوسروں کو آئینے میں خلا نظر آتا ہے، مجھے وہاں اشتہاری جگہ دکھائی دیتی ہے۔‘‘
بھائی صاحب نے بالوں کو نہیں، بل کہ سوچ کو بڑھنے دیا ہے۔ اس لیے تو کہتے ہیں کہ سوچ کو بدلو!
لیکن ایسا کرنے والا صرف اکیلا شفیق نہیں، بل کہ دنیا بھر میں ایسے کئی نابغے پائے جاتے ہیں، جنھوں نے اپنی چمکتی ہوئی کھوپڑی سے دنیا کو چونکا دیا ہے۔ امریکہ کے ’’ٹیرے گارٹنر‘‘ ہی کو دیکھ لیں۔ اُس نے اپنی ٹنڈ کو ’’ہیڈلائن ایڈورٹائزمنٹ کمپنی‘‘ کے ذریعے اشتہاری پلیٹ فارم میں بدلا ہے۔ لوگ اُس کے سر پر اپنا برانڈ چھپواتے ہیں اور وہ گھومتے پھرتے ڈالر چھاپتا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ پہلی ڈیل ہی میں اُس نے 37 ہزار ڈالر کمائے تھے۔ لوگ سمجھتے تھے گنجا ہوگیا، اب بے چارہ کیا کرے گا……مگر اُس نے یہی بے چارگی بیچتے بیچتے کروڑوں کمائے اور دنیا کو بتا دیا کہ بال نہیں، کمال چاہیے۔
پہلے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ ’’یہ تو جادو ہے، جو سر چڑھ کر بول رہا ہے!‘‘لیکن جناب، اب دور بدل گیا ہے۔ برطانیہ میں تو عشق نے سر چڑھ کر بولنے کا باقاعدہ اشتہار چھپوا لیا ہے! محبوبہ سے اظہارِ محبت کرنے کے لیے بندے نے سیدھا اپنی ٹنڈ پر "I love you Sarah, marry me” لکھوا دیا۔ اب جادو والے کم از کم دم درود تک محدود تھے، یہ عشق تو پورا سر بُک کر کے بیٹھ گیا! لگتا ہے اگلا قدم یہ ہوگا کہ شادی کی تاریخ بھی سر پر ٹیٹو کرالیں، تاکہ کارڈ چھپوانے کی زحمت نہ ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سارہ جی نے بھی صرف سر دیکھا اور دل دے دیا۔ کہنے لگیں، ’’اتناانوکھا پروپوزل پہلے کسی نے نہ دیا ہوگا!‘‘
چین کی مارکیٹنگ کا تو جواب نہیں۔ بیجنگ کے ایک سیلون نے گنجے گاہکوں کو مفت سروس کے بدلے ٹنڈ پر ’’QR کوڈ‘‘ پینٹ کرنا شروع کر دیے۔ اب بندہ کسی کا سر اسکین کرتا ہے، تو فوراً ویب سائٹ کھل جاتی ہے، یعنی سر پر ہی لنک اور دماغ میں بہ راہِ راست مارکیٹنگ۔
دوسری طرف کینیڈا میں ایک فن کار نے اپنی ٹنڈ کو آرٹ گیلری میں بدل دیا ہے۔ وہ ہر ہفتے اپنی کھوپڑی پر کوئی نیا منظر پینٹ کرتا ہے۔ کبھی پرندے، کبھی نیلے آسمان، کبھی ماحولیات کے پیغامات اور پھر سے سوشل میڈیا پر ڈال دیتا ہے۔ اُس کا انسٹاگرام اکاؤنٹ لاکھوں فالوورز سے بھرا پڑا ہے، اور وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر دماغ کھلا ہو، تو سر پر بال ہوں یا نہ ہوں، بندہ ابھر ہی آتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جہاں بالوں والے بالوں کی فکر میں بال سفید کرتے رہتے ہیں، وہاں ایسے ذہین گنجے مزے لے رہے ہیں۔
پاکستانی اخبارات میں اگر کسی چیز کا اشتہار سب سے زیادہ چھپتا ہے، تو وہ ہے: ’’بابا بنگالی کا تعویذ‘‘، ’’مردانہ طاقت کا راز‘‘ اور ’’گرتے بالوں کا علاج۔‘‘ ایسا لگتا ہے جیسے پوری قوم یا تو کم زور ہے یا گنجی، یا پھر دونوں!
ہر دوسرا اشتہار چیخ چیخ کر کَہ رہا ہوتا ہے: ’’اب گنجا پن ماضی کی بات!‘‘ حالاں کہ ہم پوچھنا چاہتے ہیں، کہ اقبالؔ کے شاہینوں کو بالوں کی ضرورت کیا ہے؟ وہ تو ویسے ہی فضا میں بلند پرواز کے قائل ہیں۔ اب یہ ضروری تو نہیں کہ ہر شاہین کی مانگ میں زُلف ہو۔ کچھ شاہین اپنی ٹنڈ کی چمک سے ہی دوسروں کو روشنی دکھاسکتے ہیں…… اور جہاں دماغ ہو، وہاں بالوں کی کیا حیثیت؟ یہ قوم تو ویسے بھی عزم، حوصلے اور اب سر پر اشتہار چھپوانے کی صلاحیت سے مالا مال ہے!
تو صاحبو! اب گنج پن سے گھبرانا چھوڑیں اور ٹنڈ کو اپنی پہچان بنائیں۔ یہ کوئی شرمندگی نہیں، بل کہ دماغ کی اوپن اسپیس ہے…… یعنی وہ جگہ جہاں خیالات اترتے ہیں، بزنس پلانز پنپتے ہیں اور کام یابی کے پودے اُگتے ہیں۔ بالوں کے نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ دماغ خالی ہے، بل کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اَب دماغ کے اصل کام کا وقت آ چکا ہے۔ سوچیے، جیف بیزوس، وین ڈیزل یا بالکل ہمارے آس پاس کے کام یاب گنجے افراد……کیا کسی نے اُن کی ٹنڈ کو ناکامی کی علامت سمجھا؟ ہرگز نہیں، بل کہ ان کی ٹنڈ خود ایک اسٹائل، ایک سٹیٹمنٹ اور ایک برانڈ بن چکی ہے۔ اس لیے اگلی بار جب کوئی ’’گنجا‘‘ کہے، تو مسکرائیں۔ گرم جوشی سے ہاتھ ملائیں اور بڑے اعتماد سے بولیں: ’’بال تمھارے ہیں، مگر کام یابی کی چمک تو میری ٹنڈ سے آ رہی ہے!‘‘
بالوں پر خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ دماغ پر خرچ کریں۔پھر چاہے بال نہ ہوں، دنیا آپ کے قدموں میں ضرور ہوگی۔ سو، ٹنڈ کو چھپاؤ نہیں، چمکاؤ……! کیوں کہ اصل پاؤر بالوں میں ہے، نہ شیمپو میں…… بل کہ اُس دماغ میں ہے، جو ٹنڈ کے نیچے بجلی کی طرح دوڑ رہا ہوتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

2 Responses

شرافت علی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے