قارئین! لفظونہ ڈاٹ کام پر ایک اچھی بحث کا آغاز ہوا ہے۔ اس سلسلے میں اب تک صرف تین مضامین
٭ جامعات اور دینی مدارس (مختصر تقابلی جائزہ)
٭ جامعات و دینی مدارس (جوابِ آں غزل)
٭ جواب الجواب
سامنے آئے ہیں۔ مَیں نے درخواست کی تھی کہ مکالمے کا سلسلہ جاری رہے، تاکہ مختلف نقطۂ نظر سامنے آتے رہیں اور اجتماعی دانش کی راہیں کھلیں، جن کی روشنی میں فیصلے کیے جاسکیں۔
بدقسمتی سے ہم بہ یک وقت ایک جذباتی، انتہا پسند اور سوئی ہوئی قوم ہیں۔ حادثات ہمیں وقتی طور پر جگا دیتے ہیں، ہم ضرورت سے کہیں زیادہ ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں اور پھر دوبارہ خوابِ غفلت کے مزے لوٹنے لگتے ہیں اگلے کسی حادثے تک۔ دریائے سوات کا المیہ ہو، تجاوزات ہوں یا پچھلے سیلاب، ہمارے رویے ہمیشہ ایک جیسے ہوتے ہیں: پُرجوش، انتہا پسند، جذباتی اور پھر گہری نیند۔
موضوع سے جڑے رہتے ہوئے، مَیں یہاں صرف رویوں کی بات کروں گا۔ بہ ذاتِ خود کوئی مدرسہ، درس گاہ یا تعلیمی ادارہ اچھا ہوتا ہے نہ برا۔ اگر ہم ماضیِ قریب پر نظر ڈالیں، تو لاکھوں طلبہ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ کہیں کسی ایک یونیورسٹی میں کوئی واقعہ ہوجائے، تو ہم تمام یونیورسٹیوں اور مخلوط نظامِ تعلیم کے خلاف جذباتی ردِ عمل کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ سوات یونیورسٹی میں اگر کچھ غلط ہوا، تو وہ کسی فرد کا گناہ تھا، اُس میں ادارے کا کیا قصور؟ یوں جہانزیب کالج میں ایک واقعے کو بنیاد بناکر ہم نے اس عظیم ادارے کی حرمت مشکوک کر دی۔ اگر کسی اسکول میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے، تو گویا تمام اسکول کٹہرے میں آجاتے ہیں۔
اسی طرح، اگر کسی دینی مدرسے میں کچھ ہو جائے، تو سب کو لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ غلط، غلط ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم معاشرے کی تربیت کر رہے ہیں؟ چلیے ، تربیت کی بات چھوڑ دیں، کیا ہم تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت دے بھی رہے ہیں، کیا اخلاقیات ہمارے لیے اہم ہیں بھی، کیا ہم اخلاقیات کو کوئی وقعت دیتے ہیں؟
ہمارے دوہرے نظامِ تعلیم میں فرق صرف ظاہری شکلوں اور لباس کا ہے۔ معاف کیجیے گا، ایک کو ہم ’’دینی تعلیم‘‘ کہتے ہیں اور دوسرے کو ’’دنیاوی تعلیم۔‘‘
دنیاوی تعلیم کا ہر مضمون درحقیقت دینیات اور مطالعۂ پاکستان کا ’’ملغوبہ‘‘ بن چکا ہے۔ ہر کتاب حمد، نعت، قائدِ اعظم، علامہ اقبال سے شروع ہوکر قومی ترانے پر ختم ہوتی ہے۔ جب بچہ ادب پڑھتا ہے، چاہے اُردو ہو، انگریزی یا پشتو…… ایک ہی بیانیہ دہرایا گیا ہوتا ہے۔ تاریخ میں ذاتی تاریخ پڑھتا ہے۔ سائنس میں نظریات کو پڑھنے سے پہلے اُستاد بتاتا ہے کہ ’’سائنس صرف امتحان پاس کرنے کے لیے ہے، باقی یہ ’یہودی و نصرانی نظریات‘ ہیں۔‘‘
دوسری طرف بچے (بے چارے) کو خود بھی کوئی دل چسپی نہیں ہوتی۔ اُسے صرف اتنا پتا ہوتا ہے کہ کام یابی مختلف چیزیں’’رٹ لینے‘‘ ” میں ہے یا 1100 میں سے 1090 یا 1095 نمبر لینے میں ہے۔ یہی مقصدِ تعلیم ہے اور یہی حاصلِ علم……!
کچھ ایسا ہی دینی مدارس میں بھی ہوتا ہے۔ صرف اپنی کتابیں، اپنا نقطۂ نظر رٹنا ہے اور اس پر ڈٹے رہنا ہے۔ اس کے علاوہ ہر اختلاف کو ’’باطل‘‘ قرار دینا ہے…… اور یہی ان نظام ہائے تعلیم کی بنیادی خامی ہے۔
بیرونِ ملک جب تعلیم دی جاتی ہے، تو ایک ہی موضوع پر دو متضاد آرا بہ یک وقت پیش کی جاتی ہیں۔ مثلاً: محمد بن قاسم نے دیبل پر حملہ کیا جیسا بیانیہ ہم نے ہمیشہ پڑھا، مگر دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ امویوں نے سادات کا تعاقب کرتے ہوئے سندھ پر حملہ کیا، یہاں قتل و غارت کی اور مال و دولت اور خواتین لے کر چلے گئے۔
بے شک مذکورہ دونوں بیانیے ایک دوسرے کی ضد ہیں، مگر اپنی اپنی جگہ موجود اور معتبر سمجھے جاتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہم نے ہر چیز میں ایک ہی ’’قومی پوزیشن‘‘ لے رکھی ہے۔ کوئی اُس سے آگے پیچھے ہوجائے، تو وہ ’’غدار‘‘ ہے، ’’کافر‘‘ ہے یا پھر ’’غیر ملکی ایجنٹ۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










