(نوٹ:۔ یہ تحریر ’’ہیوگو ڈکسن‘‘ (Hugo Dixon) کی ہے، جو ’’رائٹرز ڈاٹ کام‘‘ پر 23 جون 2025ء کو اَپ لوڈ ہوئی ہے۔ تحریر کا انگریزی عنوان "Iran conflict could tilt global balance of power” ہے، مترجم)
’’ایران تنازع عالمی طاقتوں کے توازن کو کیسے متاثر کرے گا؟‘‘ فی الوقت یہ سوال بے وقوفانہ سا لگ سکتا ہے، خصوصاً جب واقعات تیزی سے شکل تبدیل کرتے جا رہے ہوں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شامل ہو چکے ہوں۔ بہت کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا اب تہران بدلہ لیتا ہے، یا امن کا راستہ اختیار کرتا ہے؟
تاہم، کچھ ایسے عناصر ضرور ہیں، جن سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
٭ امریکہ، چین، روس اور یورپ اس تنازع سے زیادہ طاقت کے ساتھ نکلیں گے یا کم زور ہو کر؟
٭ کیا ایران کا جوہری پروگرام واقعی ختم ہو جائے گا؟
٭ کیا جنگ ایران کی حکومت کا تختہ اُلٹ دے گی؟
٭ نئی حکومت امریکہ کے لیے کم مخالفانہ ہوگی یا پھر ملک (ایران) مکمل طور پر انتشار کا شکار ہو جائے گا؟
اس بحث کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کیا امریکہ اپنی کارروائی کو مختصر اور محدود رکھ پائے گا، یا ایک طویل جنگ میں اُلجھ کر رہ جائے گا…… اور کیا دنیا امریکہ کو ایک ’’غیر ذمے دار طاقت‘‘ سمجھے گی؟
اگر اسرائیل، دنیا کی تمام تر توجہ ایران کی طرف مبذول ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے غزہ میں مزید لوگوں کو ہلاک کرتا ہے، تو بعض مبصرین امریکہ کو اس کا بالواسطہ ذمے دار ٹھہرا سکتے ہیں۔
٭ تیل کی قیمت بھی ایک اہم عامل ہے:۔ جمعہ تک برینٹ خام تیل (Brent Crude Oil) کی فی بیرل قیمت میں، 13 جون کو اسرائیل کے پہلے ایرانی حملے کے بعد سے، 11 فی صد اضافہ ہوچکا تھا۔ اب اگر شپنگ یا پائپ لائنوں میں کوئی خلل آتا ہے، تو تیل کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا کوئی تیسری طاقت اس بحران کے حل میں کردار ادا کرتی ہے اور اس سے کچھ فائدہ اٹھا پاتی ہے یا نہیں؟
٭ ٹرمپ کا نازک توازن:۔ امریکہ کے لیے یہ تنازع بہ یک وقت نفع اور نقصان دونوں کا موقع ہے۔ اگر امریکہ، ایران کا جوہری پروگرام ختم کر نے میں کام یاب ہوتا ہے، تو یہ ایک بڑی کام یابی تصور کی جائے گی اور دنیا میں امریکہ کی عالمی طاقت کا تاثر مزید مضبوط ہوجائے گا…… اگرچہ ٹرمپ نے دعوا کیا ہے کہ اُنھوں نے ایران کی جوہری افزودگی کی تنصیبات ’’مکمل طور پر تباہ‘‘ کر دی ہیں، لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ’’جوہری خطرہ‘‘ ابھی نہیں ٹلا۔
ٹرمپ کے کچھ اہم ریپبلکن حامی، خلیجی ریاستوں کے اتحادی اور چند یورپی راہ نما اس بات کو لے کر پریشان تھے کہ امریکہ کا جنگ میں شامل ہونا خطے میں مزید انتشار کا سبب بن سکتا ہے، لیکن اگر ٹرمپ ایران کے جوہری خطرے کو غیر موثر بنانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں اور طویل جنگ سے بچتے ہیں، تو یہ خدشات خود بہ خود ختم ہو جائیں گے۔
اس کے بعد امریکہ مشرقِ وسطیٰ سے توجہ ہٹا کر چین پر نظر مرکوز کرسکتا ہے۔ چین، دراصل امریکہ کی عالمی بالادستی کا واحد سنجیدہ حریف ہے۔ نیشنل سیکورٹی کے ماہر ’’رچرڈ فونٹین‘‘ (Richard Fontaine) کے مطابق، امریکہ اپنے بحری بیڑے کو ’’ہند بحرالکاہل‘‘ (Indo- Pacific) میں منتقل کرسکتا ہے۔
اگر اس تنازع کے نتیجے میں’’آیت اللہ علی خامنہ ای‘‘ کی قیادت میں موجود حکومت ختم ہوتی ہے، تو اس کے اثرات غیر یقینی ہوں گے۔ نئی حکومت شاید واشنگٹن کے لیے ’’کم مخالفانہ‘‘ ہو، لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ اتنی ہی مخالف ہو۔ اور اگر ایران مکمل طور پر ناکام ریاست بن گیا، تو امریکی اتحادی اور مخالفین دونوں مل کر اِسے خطے میں مزید عدم استحکام اور تباہی کا ذمے دار ٹھہرائیں گے۔
اگر امریکہ ایک نئی ’’لامتناہی جنگ‘‘ میں پھنس گیا، تو اس کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچے گا۔ ’’چیٹم ہاؤس‘‘(Chatham House)، برطانوی تھنک ٹینک، کے ’’رابن نبلٹ‘‘ (Robin Niblett) کے مطابق، ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے ویت نام، افغانستان اور عراق میں طاقت کا استعمال کیا، لیکن اُن سب نے امریکی اثر و رسوخ کو مضبوط کرنے کی بہ جائے کم زور ہی کیا۔‘‘
اگر ایران آبنائے ہرمز کے ذریعے تیل کی ترسیل بند کر دیتا ہے، اور اس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں تیل کے بھاو چڑھتے ہیں، تو اس وجہ سے ٹرمپ کی سیاست کو بھی جھٹکا لگے گا۔ اگرچہ امریکی تیل کمپنیاں اس سے فائدہ اٹھائیں گی، لیکن ٹرمپ کا ووٹر پٹرول کی مہنگائی سے ہر گز خوش نہیں ہوگا۔
٭ انتشار کا محور:۔ ایران اُس ’’محورِ انتشار‘‘ (Axis of Upheaval) کا حصہ ہے، جس میں ’’رچرڈ فونٹین‘‘ کے مطابق روس، چین اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ اگرچہ یہ کوئی رسمی اتحاد نہیں، لیکن پھر بھی تہران، بیجنگ اور پیونگ یانگ نے یوکرین کی جنگ میں روس کی قابلِ ذکر مدد کی ہے۔
روس اور چین، ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے پر خوش ہوں گے۔ یہ دونوں 2015ء کے جوہری معاہدے کے فریق تھے…… لیکن اگر ایران کی نئی حکومت ان کے غیر رسمی اتحاد سے فاصلہ اختیار کرنے جائے گی، تو یہ خاص طور پر ماسکو کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
جنوری میں ایران کے ساتھ 20 سالہ اسٹریٹجک معاہدہ کرنے کے بعد، اگر کریملن (ماسکو کریملن) خامنہ ای کی حکومت کی حفاظت نہیں کرسکا، تو کریملن کی کم زوری مزید آشکار ہو جائے گی، جیسا کہ وہ گذشتہ سال شام میں بشار الاسد کو تحفظ دینے میں ناکام رہا تھا۔
صدر ’’ولادیمیر پیوٹن‘‘ (Vladimir Putin) کے لیے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایران کا تنازع، روس کی یوکرین جنگ کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟ اگر ایران سے ڈرونز کی سپلائی رُک جاتی ہے، تو یہ نقصان دہ ہوسکتا ہے، لیکن اگر تیل کی قیمتیں بلند رہیں، تو کریملن کے پاس جنگی اخراجات پورے کرنے کے لیے مزید رقوم آ جائیں گی۔ اس طرح اگر امریکہ ایران میں اُلجھ کر رہ گیا، تو شاید پھر واشنگٹن، یوکرین کو فوجی امداد دینے میں کم دل چسپی ظاہر کرنا شروع کرے۔
اس صورتِ حال کا ایک حیران کن عنصر یہ ہو سکتا ہے کہ روس، جیسا کہ ٹرمپ نے حملے سے قبل ہی اشارہ دیا تھا، امریکہ اور ایران کے درمیان کوئی معاہدہ کروا پاتا ہے یا نہیں؟ "Institute Montaigne” کے ’’میشل ڈوکلوس‘‘ (Michel Duclos) کے مطابق، اگر ایسا ہوتا ہے، تو روس شاید امریکہ سے یوکرین کے لیے مزید امداد کم کرنے کی شرط رکھے۔
چین کی خاطر تیل کی قیمتوں میں اضافہ بری خبر ہوگی۔ کیوں کہ وہ توانائی درآمد کرتا ہے، جب کہ تہران میں حکومت کی تبدیلی چین کے لیے ایک اہم علاقائی اتحادی کا خاتمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے، لیکن اگر امریکہ مشرقِ وسطیٰ کی ایک اور جنگ میں پھنستا ہے، تو بیجنگ کو فائدہ ہو سکتا ہے، جیسا کہ اُس نے عراق جنگ کے بعد کیا تھا، جب اُس نے اپنی معاشی اور سیاسی قوت میں اضافہ کیا تھا۔
نیز چین دوسرے ممالک کو یہ تاثر بھی دے سکتا ہے کہ وہ ایک ذمے دار طاقت ہے، جب کہ امریکہ جارحیت پسند ہے۔ یہ ایک طرح سے ایسا بیانیہ ہے، جسے ٹرمپ کی ’’تجارتی جنگوں‘‘ نے پہلے سے مضبوط کر دیا ہے۔
٭ یورپ کی کم زوری:۔ اگر مذکورہ تنازع شدت اختیار کرتا ہے، تو یورپ کے لیے بہت کچھ داو پر لگا دکھائی دیتا ہے۔ چوں کہ یورپ تیل کا بڑا درآمد کنندہ ہے، اس لیے قیمتوں کے جھٹکوں سے وہ بھی متاثر ہوگا۔ اگر ایران میں خانہ جنگی یا بدامنی پھیلتی ہے، تو پناہ گزینوں کی نئی لہر یورپ کا رُخ کرے گی، جو پہلے ہی دائیں بازو کی قوم پرستی سے متاثر ہے۔ ایران کی آبادی 9 کروڑ 20 لاکھ ہے، جو شام کی آبادی سے چار گنا زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ 2015ء میں شامی مہاجرین کے بحران نے یورپی سیاست میں کھلبلی پڑی تھی۔
یورپ کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ایران کا بحران کہیں یوکرین میں روس کو فائدہ نہ پہنچائے۔ اس کے برعکس، اگر یورپ، امریکہ اور ایران کے درمیان کسی معاہدے میں کردار ادا کرسکے، تو اسے سفارتی فائدہ ہو سکتا ہے، اگرچہ حملے سے قبل ٹرمپ نے اس امکان کو مسترد کر دیا تھا۔
خیر، یہ تو وہ عوامل ہیں جو ہمارے علم میں ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو ابھی کسی کے تصور میں نہیں، اور یہی غیر متوقع عناصر طے کریں گے کہ آیا ایران کا بحران عالمی طاقتوں کے توازن کو دوبارہ امریکہ کے حق میں جھکاتا ہے یا چین کے……؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










