حاجی ہدایت الرحمان (قاضی صاحب)

Blogger Hilal Danish

کہتے ہیں کہ عظیم لوگ چراغوں کی مانند ہوتے ہیں۔خاموش…… مگر راستہ دکھانے والے، سادہ…… مگر دلوں کو روشن کرنے والے۔
میرے نانا، قاضی ہدایت الرحمان المعروف قاضی صاحب رحمہ اللہ، ایسے ہی ایک روشن چراغ تھے، جن کی زندگی علم، عمل، وفا، دیانت اور سادگی سے عبارت تھی۔
٭ نسب و تربیت:۔ بابا نے 1920ء میں چارباغ، سوات میں ایک سید گھرانے میں آنکھ کھولی، جو ’’بوڈا بابا میاں گان‘‘ (گلی باغ، چارباغ سوات) کے نام سے معروف ہے۔ قاضی صاحب (مرحوم) کے والد، مولانا فقیر محمد میاں المعروف ’’بازار مولوی صاحب‘‘، اپنے وقت کے جلیل القدر عالمِ دین تھے، جن کی علمیت، تقوا اور حلم کا چرچا پورے علاقے میں تھا۔ قاضی صاحب کو نیکی، دیانت، حلم اور سادگی ورثے میں ملی۔ اُنھوں نے عمر بھر ان اوصاف کو نہایت سلیقے اور شعور کے ساتھ اپنی زندگی میں سجائے رکھا۔
٭ علمِ قرآن سے وابستگی:۔ قاضی صاحب (مرحوم) نے محض 7 سال کی عمر میں قرآنِ کریم حفظ کرکے سعادتِ کاملہ حاصل کی۔ اُن کے چہرے سے نورِ قرآن جھلکتا اور اُن کی زبان سے نکلنے والے الفاظ دلوں کو گرما دیتے۔ بچپن ہی میں جب والدِ محترم فالج کے مرض میں مبتلا ہوکر سات سال تک بسترِ علالت پر رہے، تو قاضی صاحب (مرحوم) نے کم سنی کے باوجود ایسی خدمت گزاری کا ثبوت دیا، جو مثالی ہے۔ اُن کی یہی خدمت اور دعاؤں کی برکت اُن کی ساری زندگی کا سرمایہ رہی۔
٭ صداقت، متانت اور کردار:۔ قاضی صاحب (مرحوم) کی شخصیت کا جوہر صداقت تھا۔ اُن کی زبان سے نکلا ہر لفظ حق اور سچائی کی خوش بو بکھیرتا۔ وہ حق گوئی میں بے مثال تھے، خواہ حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوتے، مگر بابا کا سر کبھی باطل کے سامنے نہیں جھکا۔ اُن کی متانت ایسی تھی کہ محفل میں بیٹھے، تو محفل سنور گئی، اور چپ رہے، تو خاموشی باوقار ہوگئی۔ اُن کے کردار میں ایک عجیب سا سکون اور بھروسا تھا۔ جو بھی قریب آتا، دل کی گواہی دیتا کہ یہ شخص سچائی اور خیرخواہی کا پیکر ہے۔
٭ اخلاق و خوش خلقی:۔ قاضی صاحب (مرحوم) کی اخلاقی زندگی مثالی تھی۔ نرم لہجہ، خوش اخلاقی، صبر، برداشت اور دوسروں کی عزت کرنا اُن کی روزمرہ زندگی کا حصہ تھا۔ کبھی کسی کو سخت لفظ نہ کہا، نہ اپنی زبان یا عمل سے کسی کو دکھ ہی پہنچایا۔ اُن کے ہاں مہمان نوازی کا ایک خاص رنگ تھا: جو بھی اُن کے پاس آتا، دل سے خوش ہو کر لوٹتا۔
٭ رنگ و روپ اور چستی:۔ اللہ تعالیٰ نے قاضی صاحب (مرحوم) کو فطری حسن سے بھی نوازا تھا۔ میانہ قد، روشن چہرہ، گھنی بھنویں اور آنکھوں میں وقار کی چمک نمایاں تھی۔ چال میں چستی، حرکات میں تازگی اور انداز میں سادگی کا حسین امتزاج تھا۔ زندگی کے آخری ایام تک اُن کی چستی قابلِ رشک رہی، گویا جسمانی قوت اور روحانی جِلا کا خوب صورت امتزاج تھے۔
٭ بچوں کی تربیت:۔ قاضی صاحب (مرحوم) نے اپنی اولاد کی تربیت میں خاص توجہ دی۔ اُن کے لیے دیانت، سچائی اور علمِ دین کی تعلیم اولین ترجیحات میں شامل تھی۔ اُنھوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو نہ صرف دنیاوی تعلیم کی طرف راغب کیا، بل کہ دینی شعور اور اخلاقی تربیت کا ایسا ورثہ دیا جس کا رنگ آج بھی نسلوں میں جھلکتا ہے۔ سادگی، حق پسندی اور خلوص اُن کے تربیتی اصول تھے۔ کہتے تھے: ’’علم بغیر عمل کے بوجھ ہے اور اخلاق بغیر ایمان کے دھوکا۔‘‘
٭ لقب ’’قاضی‘‘ کی پہچان:۔ دیانت داری اور عدل پسندی کی بہ دولت علاقے کے عوام نے قاضی صاحب (مرحوم) کو ’’قاضی‘‘ کے لقب سے نوازا۔ اُن کا ہر فیصلہ عدل پر مبنی ہوتا اور ہر مشورہ سچائی کی بنیاد پر۔
٭ جہادِ کشمیر اور عسکری خدمات:۔ ریاستِ سوات کے دور میں قاضی صاحب (مرحوم) مشین گن دستے کے کمان دار تھے۔ جب 1947ء میں کشمیر پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا، تو پختونوں کے لشکروں نے آزادی کی خاطر محاذ سنبھالا۔ قاضی صاحب (مرحوم) نے ریاستِ سوات کے لشکر کے ساتھ کشمیر کے محاذ پر بہادری سے شرکت کی اور ثابت کر دیا کہ غیرتِ دینی اور ملی جذبہ اُن کی رگ رگ میں بسا ہوا تھا۔
٭ کاروبار، عبادت اور اخلاق:۔ ریاستِ سوات کے پاکستان میں انضمام کے بعد قاضی صاحب (مرحوم) نے سرکاری خدمات کو خیرباد کہا اور چارباغ کے معروف ٹوپی سازی کے کاروبار سے وابستہ ہوگئے۔ اُن کی بنائی ہوئی ٹوپیوں کی خوب صورتی اور معیار کا چرچا پاکستان سے لے کر افغانستان تک پھیل گیا۔
٭ روحانیت، علم و تبلیغ:۔ دینی و روحانی علوم سے قاضی صاحب (مرحوم) کی دل چسپی تادمِ آخر قائم رہی۔ چارباغ کے معروف علمی مراکز، روڑیا قاضی صاحب اور خوڑ پلو قاضی صاحب کے دروس میں شریک ہوکر علمی تشنگی بجھاتے رہے۔ تبلیغی کام میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ سات ماہ امارات میں دعوت و تبلیغ کے لیے قیام کیا، جہاں اُن کی اخلاص بھری گفت گو نے کئی دلوں کو نرم کیا۔ 1987ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی، جو اُن کے روحانی سفر کا ایک یادگار باب تھا۔
٭ وصال اور یادگاریں:۔ نومبر 2004ء میں رمضان المبارک کے بابرکت لمحات میں قاضی صاحب (مرحوم) نے مختصر علالت کے بعد داعئی اجل کو لبیک کہا۔ چم چارباغ کے عام قبرستان میں اُن کی تدفین ہوئی۔ اُن کی قبر آج بھی اہلِ چارباغ کے لیے محبت اور عقیدت کا مرکز ہے۔
٭ پس ماندگان:۔ قاضی صاحب (مرحوم) نے پس ماندگان میں تین بیٹے سید عبد الودود (محکمۂ تعلیم میں سینئر کلرک کی حیثیت سے خدمات انجام دیں)، ڈاکٹر سید محمد سلیم (محکمۂ صحت میں سائکاٹری ڈیپارٹمنٹ کے انچارج) اور سید محمد امین (محکمۂ تعلیم سے سبک دوشی کے بعد کاروبار سے منسلک ہیں) اور اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ قاضی صاحب (مرحوم) کی حیاتِ طیبہ محض ایک فرد کی کہانی نہیں، بل کہ ایک دور، ایک فکر اور ایک کردار کی کہانی ہے۔ یہ سوانح محض تحریر نہیں، ایک قندیل ہے جو آنے والے وقتوں میں راہ روانِ صداقت کے لیے روشنی کا ذریعہ بنی رہے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے