شخصی آزادی حاصل کرنے کا طریقہ

Blogger Sajid Aman

شعور وہ طاقت ہے جس سے انسان اچھے بھلے کی پہچان کر پاتا ہے۔ شعور خود سے اور اردگرد سے باخبر ہونے کا نام ہے۔ یہ شعور ہی ہے جو اچھے اور برے میں تمیز سکھاتا ہے۔ اپنے مقام اور مقاصد سے آگاہی دلاتا ہے۔
یہ شعور ہی ہے جس سے سامراج، استعمار، ظالم، استحصال کرنے والے اور بالا دست طبقات سبھی یک ساں نفرت کرتے ہیں۔
انسانی شعور، ارتقائی مراحل سے گزر کر منطقی تدبر تک پہنچنے سے روکنے کے لیے معروض میں بے پناہ مشکلات اور غیر یقینی پیدا کی جاتی ہے۔ شعور کو یرغمال رکھنے کے لیے خوش نما اور دل فریب نعرے اپنائے جاتے ہیں اور خوش کن نظارے کرائے جاتے ہیں۔ نیز خود ساختہ قسم کے ضابطے، اُصول اور قانون بنائے جاتے ہیں، تاکہ شعوری نشو و نما نہ ہوسکے۔
شعور میں ایک خامی ہوتی ہے کہ اس کی اپنی کوئی یادداشت نہیں ہوتی، بل کہ یہ عمل اور ردِ عمل کا مادہ دے کر لاشعور میں چیزیں محفوظ کرتی ہے اور پھر لاشعور ہی فیصلے کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ جیسے کسی نے شعور کو یقین دلایا کہ ’’بھٹو شہید عظیم لیڈر تھے۔ اُن کا کہا گویا پتھر کی لکیر تھا، باقی سب غلط تھا!‘‘ تو اب بھٹو کے سبھی پیروکاروں کے لاشعور سے ردِ عمل اُسی کے مطابق آرہا ہے اور اُنھیں ہر مخالف بات غلط ہی لگتی ہے۔
اگر شعور میں پختگی نہیں ہوگی، تو شعور کو یرغمال اور گم راہ کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ تیسری دنیا اور خصوصاً نچلے طبقے کے ساتھ ہمیشہ کیا جاتا ہے، اور اس استحصال کے بعد جسمانی اور معاشی استحصال شروع ہوتا ہے۔
غلام ہندوستان کی مثال سامنے ہے کہ جس میں شعوری نشو و نما کو روکنے کے لیے خصوصی نظامِ تعلیم رائج کیا گیا، جو شبہات کو جنم دینے والا تھا اور خود پر یقین کی جگہ خود سے بے زاری پیدا کرنے والا تھا۔ نیز وہ نسلی امتیاز اور مذہبی و فروعی اختلاف پر اُکساتا تھا۔ اس کا مقصد اپنے اقتدار کو طول دینا اور احتجاج کی طاقت سلب کرنا تھا۔ ایسے نظامِ تعلیم سے گزر کر بندہ ظلم سہنے پر خوش ہوتا ہے اور احتجاج کرنے پر بالکل راضی نہیں ہوتا۔ ظلم کو ایک طرح سے قسمت یا تقدیر سمجھ لیتا ہے اور انقلاب کا منکر ہوتا ہے۔
مذکورہ نظامِ تعلیم کی کڑی بن کر ہمارا نظامِ تعلیم احترامِ انسانیت کی جگہ پڑوسیوں سے نفرت اور اپنی جعلی عظمت کے اسباق رٹا رہا ہوتا ہے۔ اس لیے اذہان مسلسل قید میں رہتے ہیں۔
دوسری طرف طویل آمرانہ ادوار نے شعوری ارتقا کو مزید کم کر دیا۔ کتاب اور مطالعے سے دوری نے ظلم کو مزید بڑھاوا دیا۔ اب موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ اگر معاشرے میں تبدیلی لانے کی امید رکھنا ہے، تو شعوری بندشوں کو ختم کرنا ہوگا۔ مطالعہ لازم کرنا ہوگا۔ کتاب سے دوستی بنانی ہوگی۔ وکلا، صحافیوں، دانش وروں، ادیبوں اور شاعروں کو منظرِ عام پر آکر شعوری آبیاری کرنا ہوگی۔
مانتا ہوں کہ یہ کوئی آسان عمل نہیں۔ یہ ایک طرح سے دریا کی مخالف سمت میں تیراکی ہے۔ یہ بہ راہِ راست استحصال، ظلم، جبر، آمریت اور اندھیروں کے خلاف اعلانِ جنگ ہے، مگر تبدیلی تب تک ممکن نہیں، جب تک دانش ور سچ بولنا شروع نہ کردیں اور تکالیف نہ اٹھائیں۔ یہ آج کے دور میں ایک طرح سے فرضِ عین ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مباحثہ اور مکالمہ عام کیا جائے۔ سڈی سرکل اور سماجی پروگراموں کا انعقاد ہو۔
شعوری ارتقا کو پروان چڑھانے کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مادیت پرستی پر اندھے بھروسے کو غلط ثابت کرنا ہوگا۔ پیسے، مال اور رتبے کو گلیمرائز نہیں کرنا ہوگا۔ سادگی اور انسانیت عام کرنا ہوگی۔ بولنے، بل کہ اظہارِ رائے کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ نوجوان نسل کے ساتھ حائل خلیج کو پاٹنا ہوگا۔ شعوری ارتقا اور اس کی اہمیت پر بات کرنا ہوگی۔ کرپشن، اقربا پروری، ظلم، جبر، سود اور رشوت کے خلاف بات کرنا ہوگی اور ان کے ذریعے حاصل حیثیت کو جعلی قرار دینا ہوگا۔
یہ انقلاب تب آئے گا، جب ہم شعوری نشو و نما پر توجہ دیں گے۔ اس کے بعد شخصی آزادی کی شروعات ہوگی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے