پانی کا مسئلہ یا سیاسی ایندھن؟

Blogger Shehzad Hussain Bhatti

پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے پانی زندگی کی علامت ہے۔ دریاؤں کے نظام پر انحصار کرنے والا ہمارا ملک پہلے ہی پانی کی قلت، آبی وسائل کے ناقص استعمال اور بین الصوبائی بداعتمادی کا شکار ہے۔ ان دنوں پنجاب کی جانب سے دریائے سندھ سے چھے نئی نہریں نکالنے کے منصوبے پر سندھ حکومت، خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی شدید مخالفت جاری ہے۔ وزیرِ اعلا سندھ سید مراد علی شاہ نے ان منصوبوں کو غیرقانونی اور آئینی ضابطوں کے منافی قرار دیا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ پیپلز پارٹی اس اقدام کے خلاف ہر سطح پر مزاحمت کرے گی۔
دوسری جانب پنجاب کا موقف ہے کہ یہ نہریں 1991ء کے پانی کے معاہدے کے تحت اپنے حصے کے پانی کو بروئے کار لانے کے لیے نکالی جا رہی ہیں، جس پر سندھ کو اعتراض کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز حاصل نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملے کو سیاسی رنگ دینے کے بہ جائے، اسے حقائق اور بین الصوبائی ہم آہنگی کی بنیاد پر دیکھا جائے۔
1991ء کا معاہدۂ تقسیمِ آب (Water Apportionment Accord) پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا سب سے اہم اور متفقہ معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے تحت دریائے سندھ کے پانی کو یوں تقسیم کیا گیا:
٭ پنجاب: 55.9 4MAF
٭ سندھ: 48.7 6MAF
٭ خیبر پختونخوا: 8.7 8MAF
٭ بلوچستان: 3.8 7MAF
یہ معاہدہ وفاق اور تمام صوبوں کی رضامندی سے طے پایا، جس کی بنیاد پر ’’انڈس ریور سسٹم اتھارٹی‘‘ (IRSA) قائم کی گئی، تاکہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔ معاہدے میں یہ بات واضح کی گئی کہ ہر صوبہ اپنے حصے کے پانی کو اپنے وسائل اور منصوبوں کے ذریعے استعمال کرسکتا ہے۔
پنجاب کی حکومت کا دعوا ہے کہ وہ انھی حدود میں رہتے ہوئے جنوبی پنجاب کے بنجر، پس ماندہ اور صحرائی علاقوں خاص طور پر ڈیرہ غازی خان، راجن پور، بہاولپور اور مظفر گڑھ میں پانی پہنچانے کے لیے نہری نظام کو وسعت دے رہی ہے۔ ان علاقوں میں بارش کم ہوتی ہے، زیرِ زمین پانی یا تو کھارا ہے، یا ناکافی اور زراعت صرف نہری پانی پر منحصر ہے۔ اگر پنجاب ان علاقوں کی زرخیزی کے لیے اپنے حصے کا پانی استعمال کرتا ہے، تو یہ نہ صرف آئینی و قانونی طور پر درست ہے، بل کہ معاشی اور زرعی ترقی کے لیے ناگزیر بھی ہے۔
سندھ کا اعتراض یہ ہے کہ ایسی نہریں نکالنے کے لیے ’’مشترکہ مفادات کونسل‘‘ (CCI) کی منظوری ضروری ہے۔ یہ دلیل تکنیکی اور قانونی اعتبار سے کم زور ہے۔ کیوں کہ ’’سی سی آئی‘‘ کی منظوری اُن منصوبوں کے لیے لازم ہوتی ہے، جن کا بین الصوبائی اثر ہو، یا جو کسی دوسرے صوبے کے حصے میں کمی کا باعث بنیں۔
اگر پنجاب کی نہریں اپنے حصے کے پانی تک محدود رہیں، تو یہ منصوبے نہ صرف آئینی دائرے میں آتے ہیں، بل کہ انھیں روکنا دوسرے صوبے کے حق پر قبضہ کرنے کے مترادف ہوگا۔
وزیرِ اعلا سندھ نے "IRSA” پر یہ الزام بھی لگایا کہ اس نے 17 جنوری 2024ء کو پانی کی دست یابی کے متعلق ایک گم راہ کن سرٹیفکیٹ جاری کیا، جس کی بنیاد پر پنجاب کو چھے نہری منصوبوں کی منظوری ملی۔ حالاں کہ "IRSA” کے مطابق دریائے سندھ میں فی الوقت پانی کی دست یابی اس حد تک ہے کہ ہر صوبہ اپنے طے شدہ حصے کو استعمال کرسکتا ہے۔ مزید برآں، "IRSA” کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ دو سالوں میں پنجاب نے اکثر اوقات اپنے حصے سے کم پانی استعمال کیا، جس کی وجہ سے سندھ کو زیادہ پانی میسر آیا۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ سندھ کے کئی علاقوں میں بھی غیر رسمی نہریں یا کھالیں موجود ہیں، جن پر کبھی کبھی پنجاب نے اعتراضات کیے، لیکن اُسے سیاسی محاذ پر نہیں لایا گیا۔ اگر پانی کی تقسیم کا ہر تنازع سیاسی رنگ اختیار کرے گا، تو اس کا نقصان پورے ملک کو ہوگا۔
پانی کے حوالے سے پاکستان پہلے ہی خطرناک حد تک کم زور ہوچکا ہے۔ ’’ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 2040ء تک شدید آبی قلت والے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں فی کس پانی کی دست یابی 1950ء میں 5,000 مکعب میٹر تھی، جو اَب گھٹ کر 1,000 سے بھی کم ہوچکی ہے۔ اس وقت ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ پانی کے استعمال پر سیاسی جنگ کے بہ جائے قومی مکالمہ کیا جائے، تاکہ ہم اپنے وسائل کو بروقت اور منصفانہ طریقے سے استعمال کرسکیں۔
آخری بات یہ ہے کہ پانی کسی ایک صوبے کا نہیں، پوری قوم کا اثاثہ ہے۔ ہر صوبے کو اس پر مساوی حق حاصل ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر صوبے کو دوسرے کے حق کا بھی احترام کرنا ہو گا۔ اگر پنجاب اپنے آئینی اور معاہداتی دائرے میں رہتے ہوئے ترقیاتی منصوبے بنا رہا ہے۔ تو اسے روکنے کے بہ جائے تعاون کیا جانا چاہیے۔ سندھ کے خدشات بجا، لیکن اس کا اظہار اعداد و شمار اور مکالمے کے ذریعے ہونا چاہیے، نہ کہ الزام تراشی اور سیاسی بیانات سے۔
پانی قومی بقا کا مسئلہ ہے، اور اس پر سیاست وہ زہر ہے، جو صرف پنجاب یا سندھ نہیں، پورے پاکستان کو کم زور کرے گا۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے