مصطفیٰ عامر قتل کیس سے جڑے حقائق

Blogger Ikram Ullah Arif

کراچی میں مصطفی نامی نوجوان کا قتل میڈیا میں زیرِ بحث ہے۔
کہانی کا آغاز کچھ اور تھا، اختتام کچھ اور ہونے جارہا ہے۔ اگرچہ ابھی تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں، مگر جو کچھ ابھی تک سامنے آیا ہے، وہ افسوس ناک ہے، حیران کن بالکل نہیں۔
افسوس ناک اس لیے کہ یہ معاملہ بھی منشیات والا بنتا جا رہا ہے۔ حیران کن اس لیے نہیں کہ یہ اس ضمن میں پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔
میڈیا اسے جو بھی رنگ دے، مقتول کے والدین جس بھی قسم کی انگریزی بولیں، اورملزمان کی اداکاری جو بھی ہو، ابھی تک سامنے آنے والے شواہد یہی بتا رہے ہیں کہ معاملہ منشیات کی ترسیل اور فروخت کا ہے۔ یوں سارا گروپ منشیات سے وابستہ نظر آرہا ہے۔ وہی منشیات جس نے پورے سماج کو کھوکھلا کر رکھا ہے۔
مذکورہ کیس میں مقتول اور ملزمان کے موبائل فون سے جو مبینہ فہرست میڈیا تک پہنچی ہے، وہ تشویش ناک ہے۔ کتنے بڑے سیاست دان، بیورو کریٹ، شوبز سے تعلق رکھنے والے لوگ اور بڑی سوسائٹیوں میں رہایش پذیر خاندان کے چشم وچراغ اس لت میں مبتلا ہیں۔
اگر کراچی میں ڈاکہ زانی، لوٹ مار اور موبائل چھیننے جیسے واقعات ختم نہیں ہورہے، تو یہ نتیجہ اخذ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ اس کی بڑی وجوہات میں ایک منشیات بھی ہے۔ حصولِ منشیات کے لیے اب کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا۔ کیوں کہ ایک نشئی کو بہ ہر صورت نشہ چاہیے، خواہ اس کے لیے اُسے کسی کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے۔
منشیات سے جڑے قتل کے جتنے کیس ابھی تک میڈیا کی زینت بنے ہیں، اکثریت میں ملوث لوگ ’’ہائی پروفائل ٹائپ‘‘ ہوتے ہیں، قاتل بھی اور مقتول بھی۔ یہ لوگ شہر کے مہنگے ترین علاقوں کے رہایشی نکلتے ہیں۔ نیز شہر کے نجی مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچے بچیاں بھی اس لت میں مبتلا ہیں۔
یہ بھی نہیں کہ صرف مال دار لوگ ہی نشہ کرتے ہیں۔ غریب لوگ بھی کسی گندے نالے، یا کسی پل کے نیچے بدبودار حالت میں پڑے سوٹے لگاتے پائے جاتے ہیں…… مگر جس کیس میں مصطفی قتل ہواہے، ایسے کیسوں میں جن منشیات کی تفصیلات عام ہوئی ہیں، اُس قسم کی منشیات غریب بندے کی قوتِ خرید سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُس قسم کی منشیات کی ترسیل اور استعمال میں بین الاقوامی مداخلت ہوا کرتی ہے۔
قارئین! آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل لاہور پولیس نے ایک کارروائی کی تھی، جس میں شہر کے پوش علاقے سے کچھ لوگ پکڑے گئے تھے۔ اُن کو قریبی پڑوسی ملک کے کچھ لوگوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ وہی گینگ تعلیمی اداروں اور دیگر خرید کنندگان کو کورئیر کمپنیوں کے ذریعے منشیات مہیا کیا کرتا تھا۔ وہ گینگ پکڑا گیا تھا، مگر اُس کا انجام کیا ہوا؟ کسی کو کچھ پتا نہیں۔
اب جب مصطفی قتل کیس میں منشیات کی ریل پیل والی کہانی سامنے آئی ہے، تو لوگ کو یہ بھی یاد آگیا کہ کراچی ہی میں نشے میں دھت ایک خاتون نے ایک نوجوان کو کار سے ٹکر ماری تھی۔ چند دن ہلہ گلہ ہوا۔ پیسے چلے اور پھر ’’راضی نامہ‘‘ ہوگیا۔
اسی طرح اسلام آباد میں ’’نور مقدم قتل کیس‘‘ میں بھی منشیات کی کہانی چلی تھی۔ اُس کیس کا کیا ہوا؟
اِس ملک کی بدقسمتی ہی یہی ہے کہ انسدادِ منشیات پر مامور ادارے ہی ترسیلِ منشیات میں حصہ دار بنے ہوئے ہیں۔ وگرنہ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ پولیس تھانے کے سامنے منشیات فروش کا گھر ہو، وہاں روز ہر قسم کا نشہ فروخت ہورہا ہو اور پولیس بے خبر ہو؟
راقم نے اس حوالے سے کچھ تحقیق کی، تو ذرایع کی مدد سے پتا چلا: ’’علاقے کے تمام منشیات فروش ہر روز صبح سویرے ایس ایچ اُو صاب کے سامنے حاضری لگا تے ہیں۔‘‘
اب ہر کوئی سمجھتا ہے کہ حاضری میں اگر نذرانہ پیش نہ کیا جاتا ہو، تو کیوں کر ایسوں کو کھلا کارباور کرنے کی اجازت مل سکتی ہے؟
اور یہ جو تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی بات کی جاتی ہے، تو یہ بھی مکمل ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ وگرنہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پولیس اور خود جامعات، سکول اور کالجوں کے تہہ در تہہ انتظامی عہدے داروں کی موجودگی میں طلبہ و طالبات تک منشیات بہ آسانی پہنچتیں؟ جب چوکی دار ہی چورکا یار نکلے، تو مالکِ مکان کا ڈرنا جائز ہے۔
سب سے پہلے انسدادِ منشیات پر مامور اداروں کا آڈٹ ہونا چاہیے۔ وہاں نوکری کرنے والوں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال لازمی ہے۔ واضح الفاظ میں کہا جائے کہ جس تھانے کی حدودمیں منشیات فروخت ہوتی ہوں، وہاں کے ذمے داران پر مقدمہ چلایا جائے۔ اس طرح جس تعلیمی ادارے میں منشیات کا استعمال ثابت ہوجائے، وہاں کے انتظامی افسران کو جیل میں بند کرنے کا قانون بنایا جائے، تب کہیں جاکے اس لت سے چھٹکارے کی سبیل نکل سکتی ہے، اور بس……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے