قیام خلافت: ڈاکٹر اسرار اور غامدی کا تقابلی جائزہ

Blogger Abu Jaun Raza

ڈاکٹر اسرار احمد ہمارے ملک کا ایک معروف نام ہیں۔ اُنھوں نے خلافت کے قیام کے لیے عملی طور پر جد و جہد کی اور ’’تنظیمِ اسلامی‘‘ کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھی۔ ذیل میں اس حوالے سے اُن کے افکار کا مختصر جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
1:۔ مکی دور کی اہمیت:۔ ڈاکٹر اسرار احمد مکی دور کو اسلامی انقلاب کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ اُن کے مطابق، اُس دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے افراد کی تربیت، ایمان کی مضبوطی، اور بنیادی اقدار کے فروغ پر توجہ دی۔
اُن کی رائے میں، ایک مضبوط جماعت کی تیاری حکومتِ الٰہیہ کے قیام کے لیے اولین قدم ہے۔ حکومتِ الٰہیہ کے قیام کے لیے صرف دعاؤں سے کام نہیں ہوگا، بل کہ نظام بدلنے کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر ہے۔
ڈاکٹر اسرار کا خیال تھا کہ پارلیمانی طرزِ سیاست کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے، جب کہ خلافت کا احیا ہی حقیقی مسلم طرزِ حکم رانی ہوسکتا ہے۔ وہ اقبال کے اشعار اس حوالے سے پڑھا کرتے تھے کہ
اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن، ممبری، کونسل، صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
رسولِ اکرم اور آپ کے ساتھیوں نے 13 سالہ مکی دور میں مصائب جھیلے۔ اس کے بعد مدینے میں جنگوں کی سختیاں جھیلیں ۔ پھر اُس کے بعد اللہ کی مدد آپ کے اس طرح سے شاملِ حال ہوئی کہ نظامِ خلافت قائم ہوگیا۔
2:۔ قرآنی تعلیمات کی بنیاد:۔ ڈاکٹر اسرار نے قرآنی تعلیمات کو معاشرتی تبدیلی کے لیے بنیادی ذریعہ قرار دیا۔ اُن کے نزدیک، مکی دور میں قرآن نے افراد کو توحید، آخرت اور اخلاقیات پر مبنی ایک مضبوط بنیاد فراہم کیا۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے 1957ء میں اسی بنا پر مولانا مودودی سے اپنا راستہ جدا کرلیا تھا، کیوں کہ اُن کے خیال میں اسلامی نظام یا اسلامی انقلاب انتخاب کے ذریعے برپا نہیں ہوسکتا۔
اُن کی فکر کے مطابق اسلام میں ریاست تھیوڈیموکریسی ہوتی ہے۔ اس کے اُصول دین کے مطابق ہوں گے، یعنی ’’امرھم شوری بینہم‘‘ اور ’’الحکم الی اللہ‘‘ یعنی حاکمیت صرف اللہ کی ہے۔ اس ریاست میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے مخالف نہیں ہوسکتا۔
3:۔ عدالت حکم ہے:۔ ڈاکٹر اسرار اکثریت کے فیصلے کو قابلِ اتباع نہیں سمجھتے۔ اُن کے نزدیک نزاع کی صورت میں عدالت کا فیصلہ حرفِ آخر ہوگا۔
4:۔ اسلامی احکام کا حکومت کے ذریعے نفاذ :۔ ڈاکٹر اسرار کا خیال تھا کہ اگر حکومت یہ فیصلہ کرلیتی ہے کہ عورت کا پردہ کرنا لازمی ہے، تو وہ بہ زورِ طاقت اس حکم کا نفاذ کرے گی۔
اہم احادیث جو ڈاکٹر اسرار کی فکر کا حصہ ہیں:
1:۔ حدیثِ نبوت و خلافت:۔ ’’میری امت میں نبوت رہے گی، جب تک اللہ چاہے گا، پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوگی، پھر ملوکیت ہوگی اور پھر جابر حکومتیں آئیں گی۔ اس کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوۃ دوبارہ قائم ہوگی۔‘‘
یہ حدیث خلافت کے قیام کی اہم دلیل کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، یعنی اس امت کے پہلے حصے کی بنا بھی خلافت علی منہاج النبوۃ پر تھی اور اس کے آخری حصے کی اصلاح بھی خلافت علی منہاج النبوۃ سے ہی ہوگی۔ ڈاکٹر اسرار کا اصرار تھا کہ نظام کی تبدیلی کا راستہ ’’انقلاب‘‘ کے ذریعے ممکن ہے، جو سیرہ نبوی میں رسولِ اکرم کی انقلابی جد و جہد کو سمجھ کر اپنانے سے ہی حاصل ہوگا۔
2:۔ عدل و انصاف کی اہمیت:۔’’سب سے بہتر جہاد ظالم حکم ران کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے۔‘‘
ڈاکٹر اسرار کے مطابق، اسلامی نظام میں عدل و انصاف کا قیام اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
٭ منظم جماعت کا قیام اور امیر کی بیعت:۔ ڈاکٹر اسرار کی نظر میں انقلاب کے لیے ایک جماعت تشکیل دی جانی ضروری ہے، جس کے اراکین اس جماعت کے امیر کے ہاتھ پر سمع و طاعت کی بیعت کریں گے۔
٭ تبصرہ:۔ حکومتِ الٰہیہ کے قیام کے لیے جو اصول پیش کیے گئے ہیں، وہ نظریاتی طور پر مضبوط ہیں، مگر ان کا اطلاق موجودہ نظام میں کیسے کیا جائے، یہ سوال باقی رہتا ہے۔ جب ایک مملکت اسلام کے نام پر قائم ہوگئی اور وہاں قوانین پر اسلامی طرز کے بن گئے، تو پھر اب تبلیغ و تلقین کا راستہ ہی بچتا ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ انسان بغاوت کرے اور لوگوں کو اکھٹا کرکے کوئی تحریک چلائے۔ اگر لاکھ دو لاکھ افراد اس راستے میں مرکٹنے کو تیار ہوں، تو شاید حکومت کا تختہ اُلٹ کر تحریک کے امیر کو اس پر بٹھا دیا جائے، جو بہ زور طاقت اس اسلام کو نافذ کرے جس کو وہ صحیح سمجھتا ہو۔
٭ قیامِ خلافت کے حوالے سے جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کے اہم پہلو:۔ جاوید احمد غامدی ہمارے ملک کے مایہ ناز اسکالر ہیں۔ بہت سے معاملات پر آپ دوسرے اسکالروں سے جداگانہ موقف رکھتے ہیں۔ آپ کے اور ڈاکٹر اسرار احمد کے درمیان حکومتِ الٰہیہ کے قیام کے نظریے پر نمایاں اختلافات ہیں۔ غامدی صاحب کے مطابق، حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی ریاست کے قیام کی فکر میں چند بنیادی سوالات پر غور کرنا ضروری ہے، جن پر وہ ڈاکٹر اسرار احمد سے مختلف نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
1:۔ نبوی مشن کی تشریح میں فرق:۔ غامدی صاحب کے مطابق، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مشن صرف ایک اسلامی ریاست کے قیام تک محدود نہیں تھا، بل کہ اس کا اصل مقصد انسانوں کی اخلاقی و روحانی تربیت اور اللہ کے پیغام کو عام کرنا تھا۔
غامدی کے خیال میں ڈاکٹر اسرار نے نبوی مشن کو ریاست کے قیام تک محدود کر دیا، جو قرآن کی تعلیمات کے مکمل دائرے کا احاطہ نہیں کرتا۔
2:۔ ریاست کا قیام ایک مذہبی فریضہ نہیں:۔ جاوید احمد غامدی کے نزدیک ریاست کا قیام بہ ذاتِ خود کوئی مذہبی فریضہ نہیں۔ اُن کے مطابق، اسلام فرد کی اصلاح اور معاشرے کی اخلاقی ترقی پر زور دیتا ہے، اور حکومت کا قیام وقت اور حالات کے مطابق ہوسکتا ہے۔ وہ اس فکر کو چیلنج کرتے ہیں کہ حکومتِ الٰہیہ کا قیام ہر مسلمان پر فرض ہے۔
جاوید احمد غامدی صاحب کہتے ہیں: ’’اِس میں شبہ نہیں کہ خلافت کا لفظ اب کئی صدیوں سے اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ ہرگز کوئی دینی اصطلاح نہیں۔ دینی اصطلاحات رازی، غزالی، ماوردی، ابنِ حزم اور ابنِ خلدون کے بنانے سے نہیں بنتیں اور نہ ہر وہ لفظ جسے مسلمان کسی خاص مفہوم میں استعمال کرنا شروع کر دیں، دینی اصطلاح بن جاتا ہے۔ یہ اللہ اور اُس کے رسولوں کے بنانے سے بنتی ہیں اور اُسی وقت قابلِ تسلیم ہوتی ہیں، جب اِن کا اصطلاحی مفہوم قرآن و حدیث کے نصوص یا دوسرے الہامی صحائف سے ثابت کر دیا جائے۔ صوم و صلوٰۃ اور حج و عمرہ وغیرہ اِسی لیے دینی اصطلاحات ہیں کہ اُنھیں اللہ اور اُس کے رسولوں نے یہ حیثیت دی ہے اور جگہ جگہ اُن کے اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ لفظ ’’خلافت‘‘ اِس کے برخلاف عربی زبان کا ایک لفظ ہے اور نیابت، جانشینی اور حکومت و اقتدار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ اِس کے لغوی مفاہیم ہیں اور قرآن و حدیث میں ہر جگہ یہ اپنے اِن لغوی مفاہیم ہی میں سے کسی ایک مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ چناں چہ قرآن کی جو آیات ’’خلیفہ‘‘ اور ’’خلافت‘‘ کے الفاظ کو اُن کے ترجمے میں بعینہٖ قائم رکھ کر لوگوں کو یہ باور کرانے کے لیے پیش کی گئی ہیں کہ قرآن نے یہ لفظ کسی خاص اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا ہے، اُنھیں کسی مستند ترجمے یا تفسیر میں دیکھ لیجیے، حقیقت اِس طرح واضح ہوجائے گی کہ آپ کے پاس بھی تبصرے کے لیے کوئی الفاظ باقی نہیں رہیں گے۔‘‘
3:۔ توحید اور شریعت کے نفاذ میں فرق:۔ غامدی صاحب کے مطابق، توحید کی دعوت کا مقصد انسانوں کے دل و دماغ کو تبدیل کرنا ہے، نہ کہ شریعت کو زبردستی نافذ کرنا۔ ڈاکٹر اسرار کی فکر میں، شریعت کا نفاذ بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جو غامدی صاحب کے نزدیک ایک غیر ضروری جبر کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔
4:۔ جمہوریت کی اہمیت:۔ غامدی صاحب جمہوری نظام کو عصرِ حاضر میں اسلامی اُصولوں کے مطابق ایک قابلِ قبول طریقۂ کار سمجھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک، اقتدارِ عوام کی رائے سے حاصل ہونا چاہیے، جب کہ ڈاکٹر اسرار کی فکر زیادہ انقلابی اور غیر جمہوری عناصر کی طرف مائل نظر آتی ہے۔
جاوید احمد غامدی کے مطابق حکومتِ الٰہیہ کے قیام کے لیے ضروری بنیادیں:
1:۔ اخلاقی اور فکری انقلاب:۔ غامدی صاحب کے نزدیک، کسی بھی اسلامی معاشرے کی بنیاد اخلاقیات اور عدل پر ہونی چاہیے۔ اگر افراد کی اخلاقی تربیت نہ ہو، تو حکومتِ الٰہیہ کا قیام بے معنی ہو جاتا ہے۔
غامدی صاحب کی نظر میں ’’راشدہ‘‘ اور ’’علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ جیسی تعبیرات کو مقدر مان کر خلافت کو ایک اصطلاح بنایا گیا ہے۔ اِس لحاظ سے یہ مسلمانوں کے علمِ سیاست اور عُمرانیات کی ایک اصطلاح تو یقینا ہوسکتی ہے، جیسے فقہ، کلام، حدیث اور اِس طرح کے دوسرے علوم کی اصطلاحات ہیں، مگر دینی اصطلاح نہیں ہوسکتی۔
غامدی صاحب پُرزور انداز میں کہتے ہیں کہ اللہ اور رسول کے سوا کسی کی ہستی نہیں کہ وہ کسی لفظ کو دینی اصطلاح قرار دے۔ یہ اُنھی کا حق ہے اور کسی لفظ کے بارے میں یہ دعوا کہ وہ دینی اصطلاح ہے، اُنھی کے ارشادات سے ثابت کیا جائے گا۔ یہ ابنِ خلدون کے مقدمے سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
2:۔ آزادیِ ارادہ:۔ غامدی کے نزدیک، اسلام لوگوں کے دلوں کو جیتنے اور انھیں آزادانہ طور پر حق کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ زبردستی کا عمل شریعت کے اُصولوں کے خلاف ہے۔
3:۔ ریاست کا محدود کردار:۔ غامدی ریاست کو صرف نظم و نسق اور عدل کے قیام تک محدود سمجھتے ہیں۔ وہ اسے مذہب کا محافظ بنانے کے خلاف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مذہب افراد کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہ قرآنِ کریم کی اس آیت سے استدلال پیش کرتے ہیں: فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (سورہ توبہ 5)
پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، تو اُن کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
یعنی اسلامی ریاست میں کوئی شخص اگر داخل ہوتا ہے، تو اس سے تین ہی مطالبے ہیں:
ایک یہ کہ وہ ایمان لائے۔
دوم یہ کہ وہ نماز پڑھے۔
سوم یہ کہ وہ زکوٰۃ ادا کرے۔
حضرت ابوبکر نے مانعینِ زکوٰۃ سے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے جہاد کیا تھا۔ ایمان ، نماز اور زکوٰۃ کے بعد تیسرا کوئی مطالبہ ریاست اپنے کسی فرد سے مذہبی حوالے سے نہیں کرسکتی۔ کسی کو زبردستی حج پر نہیں بھیج سکتی۔ کسی سے زبردستی روزہ نہیں رکھواسکتی۔ اگر ریاست میں رہنے والا مسلمان نہیں، تو اُس کو غیر مسلم شخص کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی پوری آزادی ہوگی۔
٭ نتیجہ:۔ جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر اسرار احمد کے درمیان حکومتِ الٰہیہ کے قیام پر اختلافات نظریاتی بنیادوں پر ہیں۔ ڈاکٹر اسرار کا ماڈل زیادہ انقلابی، سیاسی اور شریعت کے نفاذ پر مبنی ہے، جب کہ غامدی صاحب کا نقطۂ نظر اصلاحی، اخلاقی اور جمہوری ہے۔ غامدی صاحب کے مطابق، حکومت کا قیام ایک انسانی ضرورت ہے، نہ کہ مذہبی فریضہ…… اور ریاست کو اخلاقی و عدالتی نظام پر مبنی ہونا چاہیے، نہ کہ شریعت کے جبری نفاذ پر۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے