امبیلہ مہم اور اخوند سوات (سیدو بابا) کا کردار

Blogger Doctor Gohar Ali

٭ تاریخی پس منظر:۔
1849ء میں برطانوی ہندوستان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کو فتح کرنے کے بعد وہاں اپنی حکومت قائم کی۔ اس کے ساتھ ہی سید احمد بریلوی کی تحریک سے جڑے مجاہدین نے ستھانہ اور ملکا کو اپنے مراکز بناکر انگریزوں کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رکھی۔ برطانوی حکام نے شمال مغربی سرحد کو محفوظ بنانے اور ان علاقوں میں اپنی حکم رانی مضبوط کرنے کے لیے فیصلہ کیا کہ ان مجاہدین کی کالونیوں کو ختم کیا جائے۔ 1863ء میں امبیلہ پاس کے راستے برطانوی فوج نے ان پر حملہ کیا۔
مجاہدین کی تنظیم میں کئی اندرونی تنازعات اور نظریاتی اختلافات تھے، جیسا کہ اخوندِ سوات (سیدو بابا، روحانی پیش وا) اور تحریکِ مجاہدین کے کمانڈر عبداللہ کے نظریات میں اختلاف۔ برطانوی حکام نے جدید ہتھیاروں، تجربہ کار فوجیوں اور مقامی افراد کی رشوت کے ذریعے حمایت حاصل کرکے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھایا۔ ان عوامل نے مجاہدین کی مزاحمت کو کم زور کیا۔
٭ اخوندِ سوات کا کردار:۔
برطانوی حکام کو یقین تھا کہ اخوندِ سوات، جو سوات کے علاقے کے روحانی پیش وا تھے، وہابی نظریے کے حامل مجاہدین کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے، لیکن جب ’’کوٹھہ ملا‘‘ نے مجاہدین کے حق میں جہاد کا اعلان کیا اور اخوند پر انگریزوں کا ساتھ دینے کا الزام لگا، تو حالات بدل گئے۔ اخوندِ سوات نے اس مہم میں نہ صرف عملی طور پر حصہ لیا، بل کہ اُن کی قیادت میں پختون قبائل بھی جنگ میں شامل ہوگئے۔
جنگ کا فیصلہ کُن موڑ 27 اکتوبر کو آیا، جب اخوند اپنے جنگ جو مریدوں کے ساتھ میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ اس کے نتیجے میں پورے پختون علاقے سے لوگ مجاہدین کی مدد کو پہنچے، لیکن برطانوی حکام نے مجاہدین کے درمیان اختلاف ڈالنے کے لیے رشوت اور تحائف کے ذریعے مقامی سرداروں کو اپنے ساتھ ملایا، جس کا نتیجہ اندرونی انتشار کی صورت میں نکلا۔
٭ اختتام اور نتیجہ:۔
تقریباً ایک مہینے کی لڑائی کے بعد نومبر کے آخر میں برطانوی فوج کو کمک پہنچی، اور مجاہدین کی اندرونی تقسیم نے ان کی طاقت کو مزید کم زور کر دیا۔ نتیجتاً دیر، باجوڑ اور دیگر علاقوں سے آئے جنگ جو بغیر لڑے اپنے علاقوں کو واپس لوٹ گئے۔
اخوندِ سوات کی شکست پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ شہباز محمد اپنی کتاب ’’دَ ملاکنڈ غزاگانے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جب اخوند کے خچر کا چہرہ سوات کی طرف مڑ گیا، تو وہ کافروں کی جیت اور بونیر کے مریدوں کی بے وفائی پر رو پڑا۔‘‘
اسی طرح سرن زیب سواتی اپنی کتاب ’’تاریخِ ریاستِ سوات‘‘ میں ان واقعات کو انگریزوں کی چالاکیوں اور اندرونی انتشار کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صاحبِ سوات [اخوند] نے یوسف زئی کو اپنے حکم سے رخصت کیا تھا…… اور یہ کہ ملکا میں ہندوستانی مجاہدین کے چند گھر جلانے کا معاملہ انگریز کے ساتھ طے پایا تھا۔‘‘
سرن زیب سواتی نے اُس وقت اسلامی ریاست اور شورا کی عدم موجودگی میں جہاد کی شرعی حیثیت پر بھی سوال اُٹھایا۔
٭ حاصلِ نشست:۔
امبیلہ مہم نہ صرف برطانوی انگریزوں کے لیے ایک اہم فتح تھی، بل کہ مجاہدین کی اندرونی تقسیم اور قیادت کی کم زوری کا بھی مظہر تھی۔ اخوندِ سوات نے اپنی قیادت کے ذریعے ایک بڑی مزاحمت کو ممکن بنایا، لیکن اندرونی اختلافات اور برطانوی چالاکیوں نے مجاہدین کی شکست کو یقینی بنایا۔
یہ جنگ ایک طرح سے پختون علاقے میں انگریزوں کی حکمتِ عملی اور مقامی سیاست پر اُن کے اثر و رسوخ کی ایک واضح مثال ہے۔
 ……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے